اسلام آباد —
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اکتوبر کے پہلے ہفتے میں اپنی جماعت کے ایک لاکھ حامیوں اور بین الاقوامی میڈیا کے نمائندوں کے ہمراہ قبائلی خطے جنوبی وزیرستان کی جانب امن مارچ کا اعلان منگل کو اسلام آباد میں کیا۔
اُنھوں نے کہا کہ مبینہ امریکی ڈرون حملوں کے خلاف پارلیمان کی قراردادوں کے باوجود پاکستانی سرزمین پر میزائل حملوں کو یہ سلسلہ جاری ہے جس میں ان کے بقول بے گناہ قبائلی مارے جارہے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ اس مسئلے کی جانب توجہ مبذول کروانے کے لیے انھوں نے چھ اکتوبر کو احتجاجی جلوس کی شکل میں جنوبی وزیرستان جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کے بقول وزیرستان کے محسود قبائل نے جلوس کے شرکاء کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی ہے۔
’’جب پاکستان کی سرکاری سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں ہے تو اس لیے ہماری جماعت نے یہ فیصلہ کیا کہ تمام پاکستانیوں کو اکٹھا کر کے دنیا کے میڈیا کی جانب سے دباؤ ڈالیں۔ جب تک امریکہ پر دباؤ نہیں پڑے گا تو کچھ نہیں ہونے والا کیوں یہ (پاکستانی حکام) ہر روز ڈرون حملوں کی مذمت کر دیتے ہیں اور کر کچھ نہیں سکتے۔ اس لیے ان (غیر ملکیوں) کو ساتھ لے کر جا رہے ہیں اور خطرے کے خدشات ہوتے ہوئے بھی وہاں سے لوگ یہاں آ رہے ہیں۔‘‘
عمران خان نے کہا کہ احتجاج مارچ کا آغاز اسلام آباد سے ہوگا جو ڈیرہ اسماعیل خان پہنچنے کے بعد سات اکتوبر کو جنوبی وزیرستان کی طرف روانہ ہوگا اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو بھی اس کی کوریج کے لیے مدعو کیا گیا ہے۔
اس سے قبل عمران خان نے احتجاجی جلوس کا انعقاد ستمبر میں کرنے کا اعلان کیا تھا اور اُس وقت انھوں نے اس کی منزل شمالی وزیرستان بتائی تھی جہاں زیادہ تر ڈرون حملے کیے جارہے ہیں کیونکہ امریکی حکام کے بقول افغان جنگجوؤں کا حقانی نیٹ ورک بھی اس قبائلی علاقے میں موجود ہے۔
اُدھر وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے اسلام آباد میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں ایک بار پھر کہا ہے کہ حکومت نے شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔
’’اگر ضرورت پڑی تو ایکشن ہو سکتا ہے، لیکن افواہوں پر نا جائیں کیوں کہ اس سے وہاں رہنے والوں کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ میرے خیال میں جب بھی فیصلہ کریں گے اچانک ہی ہو گا اور تمام فریق مل کر یہ فیصلہ کریں گے۔‘‘
امریکہ طویل عرصے سے پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف فوجی آپریشن کر کے ان جنگجوؤں کی پناہ گاہوں کو ختم کرے کیونکہ انھیں سرحد پار افغانستان میں اتحادی اور مقامی افواج و تنصیبات پر مہلک حملوں کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
امریکی کانگریس نے حقانی نیٹ ورک کو دہشت گرد قرار دینے کا فیصلہ کرنے کے لیے وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کو نو ستمبر تک کی مہلت دے رکھی ہے۔
دو روز قبل ایک بیان میں امریکی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ وہ اس ڈیڈلائن تک کانگریس کو اپنے فیصلے سے آگاہ کر دیں گی کہ آیا حقانی نیٹ ورک کو دہشت گرد قرار دیا جائے یا نہیں۔
لیکن بظاہر اس معاملے پر صدر اوباما کی انتظامیہ منقسم دکھائی دیتی ہے کیونکہ بعض سرکاری حلقوں کے خیال میں حقانی نیٹ ورک کو دہشت گرد قرار دینے سے افغانستان میں عسکریت پسندوں کے ساتھ مفاہمتی عمل مشکلات کا شکار ہوسکتا ہے۔
مزید برآں اس فیصلے کے پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات پر بھی منفی اثرات مرتب ہونے کا اندیشہ ہے جن میں حال ہی میں بہتری آنا شروع ہوئی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ مبینہ امریکی ڈرون حملوں کے خلاف پارلیمان کی قراردادوں کے باوجود پاکستانی سرزمین پر میزائل حملوں کو یہ سلسلہ جاری ہے جس میں ان کے بقول بے گناہ قبائلی مارے جارہے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ اس مسئلے کی جانب توجہ مبذول کروانے کے لیے انھوں نے چھ اکتوبر کو احتجاجی جلوس کی شکل میں جنوبی وزیرستان جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کے بقول وزیرستان کے محسود قبائل نے جلوس کے شرکاء کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی ہے۔
’’جب پاکستان کی سرکاری سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں ہے تو اس لیے ہماری جماعت نے یہ فیصلہ کیا کہ تمام پاکستانیوں کو اکٹھا کر کے دنیا کے میڈیا کی جانب سے دباؤ ڈالیں۔ جب تک امریکہ پر دباؤ نہیں پڑے گا تو کچھ نہیں ہونے والا کیوں یہ (پاکستانی حکام) ہر روز ڈرون حملوں کی مذمت کر دیتے ہیں اور کر کچھ نہیں سکتے۔ اس لیے ان (غیر ملکیوں) کو ساتھ لے کر جا رہے ہیں اور خطرے کے خدشات ہوتے ہوئے بھی وہاں سے لوگ یہاں آ رہے ہیں۔‘‘
عمران خان نے کہا کہ احتجاج مارچ کا آغاز اسلام آباد سے ہوگا جو ڈیرہ اسماعیل خان پہنچنے کے بعد سات اکتوبر کو جنوبی وزیرستان کی طرف روانہ ہوگا اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو بھی اس کی کوریج کے لیے مدعو کیا گیا ہے۔
اس سے قبل عمران خان نے احتجاجی جلوس کا انعقاد ستمبر میں کرنے کا اعلان کیا تھا اور اُس وقت انھوں نے اس کی منزل شمالی وزیرستان بتائی تھی جہاں زیادہ تر ڈرون حملے کیے جارہے ہیں کیونکہ امریکی حکام کے بقول افغان جنگجوؤں کا حقانی نیٹ ورک بھی اس قبائلی علاقے میں موجود ہے۔
اُدھر وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے اسلام آباد میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں ایک بار پھر کہا ہے کہ حکومت نے شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔
’’اگر ضرورت پڑی تو ایکشن ہو سکتا ہے، لیکن افواہوں پر نا جائیں کیوں کہ اس سے وہاں رہنے والوں کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ میرے خیال میں جب بھی فیصلہ کریں گے اچانک ہی ہو گا اور تمام فریق مل کر یہ فیصلہ کریں گے۔‘‘
امریکہ طویل عرصے سے پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف فوجی آپریشن کر کے ان جنگجوؤں کی پناہ گاہوں کو ختم کرے کیونکہ انھیں سرحد پار افغانستان میں اتحادی اور مقامی افواج و تنصیبات پر مہلک حملوں کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
امریکی کانگریس نے حقانی نیٹ ورک کو دہشت گرد قرار دینے کا فیصلہ کرنے کے لیے وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کو نو ستمبر تک کی مہلت دے رکھی ہے۔
دو روز قبل ایک بیان میں امریکی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ وہ اس ڈیڈلائن تک کانگریس کو اپنے فیصلے سے آگاہ کر دیں گی کہ آیا حقانی نیٹ ورک کو دہشت گرد قرار دیا جائے یا نہیں۔
لیکن بظاہر اس معاملے پر صدر اوباما کی انتظامیہ منقسم دکھائی دیتی ہے کیونکہ بعض سرکاری حلقوں کے خیال میں حقانی نیٹ ورک کو دہشت گرد قرار دینے سے افغانستان میں عسکریت پسندوں کے ساتھ مفاہمتی عمل مشکلات کا شکار ہوسکتا ہے۔
مزید برآں اس فیصلے کے پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات پر بھی منفی اثرات مرتب ہونے کا اندیشہ ہے جن میں حال ہی میں بہتری آنا شروع ہوئی ہے۔