دبئی میں قائم ایک لا فرم نے نواز شریف کی دبئی میں مبینہ ملازمت سے متعلق قانونی رائے پاکستان کی عدالت عظمٰی میں جمع کرا دی ہے۔
لافرم ’’خلیفہ بن حوادین ایڈوکیٹس‘‘ سے پاکستان میں قائم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے رابطہ کیا تھا۔
اخبار خلیج ٹائمز نے ’’خلیفہ بن حوادین ایڈوکیٹس‘‘ کے وکیل اور قانونی مشیر کے حوالے سے کہا ہے کہ لا فرم کی طرف سے اپنی رائے پیر کو عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی گئی۔
عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی گئی دستاویزات کے مطابق نواز شریف مبینہ طور پر 2014ء تک جبل علی فری زون (جافزا) میں ’کیپٹل ایف زیڈ ای‘ کے ملازم تھے اور ایسا کرنا 100 فیصد قانون کے مطابق تھا۔
اس سے قبل یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ نواز شریف اگست 2006ء سے اپریل 2014ء تک ’کیپٹل ایف زیڈ ای‘ میں بطور چیئرمین تعینات تھے اور 10 ہزار درہم تنخواہ لے رہے تھے۔
سپریم کورٹ کے حکم پر قائم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ’جے آئی ٹی‘ اپنی رپورٹ میں کہہ چکی ہے کہ نواز شریف دبئی میں قائم ایک کمپنی ’کیپٹیل ایف زیڈ ای‘ سے تنخواہ لیتے رہے ہیں۔
اگرچہ وزیراعظم نواز شریف کے بیٹے حسین نواز ’جے آئی ٹی‘ کے اس دعوے کو مسترد کر چکے ہیں اور اُن کا کہنا ہے اُن کے والد کو کمپنی چیئرمین اس لیے تعینات کیا گیا تھا تاکہ 2006ء میں متحدہ عرب امارات میں اُن کے لیے سفری اور ویزا سہولت حاصل کی جا سکے۔
عموماً کاروباری افراد اپنے ویزے کو فعال رکھنے کے لیے دبئی میں کمپنی بناتے ہیں لیکن دبئی کی قانونی فرم کے مطابق نواز شریف مذکورہ کمپنی میں ملازم ہی تھے۔
اگرچہ شریف خاندان اس بات کی تردید کرتا رہا ہے کہ نواز شریف نے کوئی تنخواہ لی، تاہم اُن کا کہنا تھا کہ کمپنی سے وابستگی کی وجہ متحدہ عرب امارات میں آمد و رفت کے لیے ویزے کی سہولت حاصل کرنا تھا۔
متحدہ عرب امارات کے لیبر قوانین ’ویج پروٹیکشن سسٹم‘ کے تحت کسی بھی کمپنی کے تمام ملازمین کے لیے باقاعدہ بینک اکاؤنٹ کے ذریعے تنخواہ لینا لازمی ہوتی ہے۔ اگر کوئی کمپنی اس پر عمل درآمد نہیں کرتی تو اُسے بلیک لسٹ قرار دے کر بند کر دیا جاتا ہے۔
جب کہ اگر کسی ملازم کو تنخواہ کی ادائیگی کا ریکارڈ نہ ملے تو اس کی ذمہ داری کمپنی پر عائد ہوتی ہے نہ کہ ملازم پر۔ ’کیپٹل ایف زیڈ ای‘ 2014ء میں تحلیل کر دی گئی تھی اور یہ واضح نہیں کہ یہ کس کی ملکیت تھی۔
شریف خاندان یہ کہتا رہا ہے کہ اُنھوں نے اپنے کاروبار سے متعلق کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کے مطابق 2013ء میں تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے سے قبل نواز شریف نے دبئی میں مبینہ ملازمت سے متعلق تفصیلات فراہم نہیں کیں، جب کہ قانون کے مطابق ایسا کرنا ضروری ہوتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دبئی میں قائم لا فرم کی طرف سے قانونی رائے عدالت عظمیٰ میں پیش کیے جانے کے بعد وزیراعظم نواز شریف کے لیے اس معاملے کا دفاع کرنا مشکل ہو گیا ہے اور ممکنہ طور پر اس کا اثر مقدمے پر بھی پڑ سکتا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف پہلے ہی ’’جے آئی ٹی‘‘ کی رپورٹ کو جانبدار قرار دیتے ہوئے مسترد کر چکے ہیں اور اُن کا کہنا ہے وہ عدالت میں تمام الزامات کا دفاع کریں گے۔