گزشتہ سال یوکرین میں گر کر تباہ ہونے والے ملائیشین طیارے کے حادثے کی تحقیقات کرنے والی بین الاقوامی کمیٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ طیارہ زمین سے فائر کیے جانے والے روسی ساختہ میزائل کا نشانہ بنا تھا۔
طیارے کو پیش آنے والے حادثے کی تحقیقات کرنے والے نیدرلینڈز کے 'ڈچ سیفٹی بورڈ' نے کئی ماہ کی تحقیقات کے بعد منگل کو اپنی رپورٹ جاری کی ہے۔
بورڈ نے اپنی حتمی رپورٹ میں قرار دیا ہے کہ روسی ساختہ 'بک' میزائل لانچر سے فائر کیا جانے والا میزائل طیارے کے بائیں حصے سے ٹکرایا تھا جس کے پھٹنے سے طیارہ فضا میں ہی ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا تھا۔
تاہم تحقیقاتی بورڈ نے اپنی رپورٹ میں یہ تعین نہیں کیا کہ یہ میزائل کس نے فائر کیا تھا کیوں کہ بورڈ کو حادثے کے ذمہ داران کا تعین کرنے کی ذمہ داری تفویض نہیں کی گئی تھی۔
ملائیشین ایئر لائنز کی پرواز 'ایم ایچ 17' 17 جولائی 2014ء کو مشرقی یوکرین پر پرواز کے دوران گر کر تباہ ہوگئی تھی جس کے نتیجے میں طیارے پر سوار تمام 298 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
طیارہ ایمسٹرڈیم سے کوالالمپور جارہا تھا اور پر سوار افراد میں سے اکثریت کا تعلق آسٹریلیا، بیلجئم، ملائیشیا اور یوکرین سے تھا۔ 'ڈچ سیفٹی بورڈ' کی تحقیقات میں ان ملکوں کے نمائندے بھی شریک تھے۔
طیارہ گرنے کا واقعہ مشرقی یوکرین میں روس نواز باغیوں اور یوکرینی فوج کے درمیان مسلح تصادم شروع ہونے کے تین ماہ بعد پیش آیا تھا اور دونوں فریقوں نے واقعے کی ذمہ داری ایک دوسرے پر عائد کی تھی۔
طیارہ جس علاقے میں گرا تھا وہ روس نواز باغیوں کے قبضے میں تھا جنہوں نے خاصی پس و پیش کے بعد غیر ملکی ماہرین اور تحقیقاتی ٹیموں کو طیارے کے ملبے تک رسائی دی تھی۔
منگل کو دی ہیگ میں ہلاک مسافروں کے لواحقین کی موجودگی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے 'ڈچ سیفٹی بورڈ' کے سربراہ جیبے جوسٹرا نے کہا کہ یوکرین کی حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنے مشرقی علاقے میں جاری مسلح تصادم کے باعث اسے مسافر طیاروں کے لیے ممنوعہ علاقہ قرار دیتی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ یوکرینی حکومت نے یہ سوچ کر مذکورہ علاقے کو "پروازوں کے لیے ممنوع" قرار نہیں دیا تھا کیوں کہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اتنی بلندی پر پرواز کرنے والے کسی مسافر طیارے کو کوئی خطرہ ہوسکتا ہے۔
پریس کانفرنس کے دوران تحقیقاتی بورڈ نے ملبے کے ٹکڑوں سے تیار کیا جانے والا تباہ شدہ طیارے کا ڈھانچہ بھی نمائش کے لیے پیش کیا جسے بورڈ نے حادثے کی تحقیقات میں معاونت کے لیے تیار کیا تھا۔
ماہرین اور یورپی ممالک کا موقف رہا ہے کہ طیارہ ممکنہ طور پر روس نواز باغیوں کے میزائل کا نشانہ بنا تھا جنہوں نے اسے یوکرینی فوجی طیارہ سمجھ کر نشانہ بنایا۔
لیکن روس اور باغیوں کو موقف ہے کہ مسافر طیارے کو یوکرین کے جنگی طیاروں یا زمین پر موجود توپ خانے نے مار گرایا تھا تاکہ اس کا الزام باغیوں پر عائد کیا جاسکے۔
روس نے نیدرلینڈز کی جانب سے پیش کی جانے والی تحقیقاتی رپورٹ کو مسترد کردیا ہے جب کہ یوکرین نے اسے اپنے موقف کی فتح قرار دیا ہے۔
روس کے نائب وزیرِ خارجہ سرگئی ریا باکووف نے اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ روس کی جانب سے شفاف تحقیقات کی تمام تر کوششوں اور تعاون کے باوجود ڈچ بورڈ نے "سیاسی احکامات پر جانبدارانہ نتائج اخذ کرنے کی کھلی کوشش" کی ہے جو روس کو قبول نہیں۔
یوکرین کے وزیرِ اعظم آرسینے یاتسنیوک نے اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ انہیں پہلے بھی اس بارے میں کوئی شبہ نہیں تھا کہ طیارے کو روس کی اسپیشل فورسز نے مشرقی یوکرین پر پرواز کے دوران نشانہ بنایا تھا۔
انہوں نے کہا کہ مشرقی یوکرین میں سرگرم روس نواز باغی اتنے باصلاحیت نہیں کہ وہ زمین سے فضا میں مار کرنے والا کوئی ایسا جدید میزائل چلا سکیں جو اتنی بلندی پر پرواز کرنے والے طیارے کو نشانہ بناتا۔
یوکرین کا الزام ہے کہ اس کے مشرقی علاقے پر قابض باغیوں کو روس کی مکمل مدد حاصل ہے جو انہیں اسلحہ، تربیت اور دیگر مادی اور مالی وسائل فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے فوجیوں کی صورت میں افرادی قوت بھی مہیا کر رہا ہے۔
روس اس الزام کی تردید کرتا آیا ہے۔
امریکہ نے نیدرلینڈز کےحکام کی تحقیقاتی رپورٹ کا ایک اہم پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کےنتیجے میں طیارے کو مار گرانے اور اس میں سوار افراد کی ہلاکت کے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لانے میں مدد ملے گی۔
وہائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ رپورٹ نے امریکہ کے اس موقف کی تائید کی ہے کہ 'ایم ایچ 17' زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل کا نشانہ بنا تھا جو مشرقی یوکرین میں باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقے سے فائر کیا گیا۔