عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے افریقہ کے ملک عوامی جمہوریہ کانگو میں ایبولا وائرس کے پھیلاؤ کو تشویش ناک قرار دیتے ہوئے گلوبل ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ وبا کانگو کے بڑے شہروں کے علاوہ ہمسائیہ ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
بروقت اقدامات اور مؤثر ویکسینیشن کے باوجود گزشتہ سال اگست میں پھیلنے والی وبا کے باعث اب تک خانہ جنگی کے شکار کانگو میں 1700 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
حکام کے مطابق ایبولا کے تدارک کے لیے ملک بھر میں ساڑھے سات کروڑ افراد کی اسکریننگ کی جا چکی ہے جس کی وجہ سے یہ بیماری اب تک ملک کے دو صوبوں تک ہی محدود ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے ماہرین نے ایبولا کی حالیہ وبا کے دوران ماضی میں تین مرتبہ گلوبل ایمرجنسی لگانے سے گریز کیا تھا۔ تاہم بگڑتی ہوئی صورتِ حال کے پیش نظر اس بار گلوبل ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔
حکام کے مطابق رواں ماہ 20 لاکھ آبادی والے شہر گوما میں ایک پادری ایبولا کے باعث ہلاک ہوا ہے جب کہ ایک خاتون ماہی گیر کی ہلاکت کی بھی تصدیق ہوئی ہے۔
گوما کا شہر یوگنڈا کی سرحد کے نزدیک واقع ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان آمد و رفت کے مرکزی راستے پر ہونے کی وجہ سے حکام اس شہر میں ایبولا کے کیس رپورٹ ہونے پر تشویش کا شکار ہیں۔
یوگنڈا میں بھی وبا پھیلنے کے خدشے کے پیشِ نظر ویکسینیشن مہم کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کی کمیٹی کے مطابق یہ خدشہ ہے کہ ایبولا دنیا کے دیگر ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے جس سے بچنے کے لیے ہنگامی اقدامات ضروری ہیں۔
کانگو میں ایبولا کے وبائی صورت اختیار کرنے کے باوجود ڈبلیو ایچ او کی جانب سے گلوبل ایمرجنسی نافذ نہ کرنے کو بعض ماہرین نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ گزشتہ 15 برسوں کے دوران یہ پانچواں واقعہ ہے جب عالمی ادارے نے کسی بھی وبائی مرض سے متعلق ہنگامی صورتِ حال نافذ کی ہے۔
ایبولا وائرس کی نشاندہی کرنے والے طبی ماہر پیٹر پائٹ کے مطابق ایسے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے جس سے لگتا ہو کہ یہ مرض کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
ان کے بقول "گلوبل ایمر جنسی کے نفاذ سے اب یہ شعور بیدار ہو گا کہ سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اس مرض کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی۔"
پیٹر پائٹ کا کہنا ہے کہ اس موذی مرض کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے بھاری سرمائے کی ضرورت ہے اور امید کی جاسکتی ہے کہ گلوبل ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد ایسا ممکن ہو سکے گا۔
افریقہ میں ایبولا وائرس کی یہ دوسری وبا ہے۔ اس سے قبل 2014ء سے 2016ء کے دوران مغربی افریقی ممالک میں اس وائرس سے 11 ہزار سے زائد افراد موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔
ایبولا کا وائرس دنیا میں موجود چند خطرناک ترین متعدی بیماریوں میں سے ایک ہے جسے 'ہیموریج فیورز' (گردن توڑ بخار) کی ایک قسم بتایا جاتا ہے۔
ایبولا سے مرنے والے افراد کی لاشیں بھی مرض کو پھیلانے کا سبب بنتی ہیں جس کے باعث ان میتوں کی تدفین صرف حفاظتی لباس پہنے ہوئے امدادی اہلکار ہی کرتے ہیں۔