پاکستان کے الیکشن کمیشن نے حزب اختلاف کے چیئرمین سینیٹ کے متفقہ امیدوار یوسف رضا گیلانی کی بطور سینیٹر کامیابی کا نوٹی فکیشن روکنے کی حکمراں جماعت کی استدعا مسترد کر دی ہے۔
بدھ کو الیکشن کمیشن نے تحریکِ انصاف کی یوسف رضا گیلانی کے سینیٹ انتخابات میں کامیابی کا نوٹی فکیشن روکنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے حکمران جماعت کی جانب سے نااہلی کی درخواست کو قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے۔
پاکستان تحریک انصاف نے ویڈیو اسکینڈل کی بنیاد پر یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کا نوٹی فکیشن روکنے کی استدعا کی تھی جس میں مبینہ طور پر ان کے بیٹے علی حیدر گیلانی حکومتی اراکین قومی اسمبلی کو ووٹ ضائع کرنے کی ترغیب دے رہے تھے۔
اسی بنیاد پر پاکستان تحریک انصاف نے یوسف رضا گیلانی کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی درخواست دائر کی تھی جسے عدالت نے مسترد کر دیا تھا۔
یاد رہے کہ تین مارچ کو ہونے والے سینیٹ انتخابات میں اپوزیشن کے متفقہ امیدوار یوسف رضا گیلانی نے حکومتی امیدوار حفیظ شیخ کو اپ سیٹ شکست دی تھی۔
دوسری جانب پاکستان میں چیئرمین سینیٹ کے انتخابات اپوزیشن اور حکومت کے درمیان واضح اکثریت نہ رکھنے کے باعث اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔
حکومت نے موجودہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی جب کہ حزبِ اختلاف نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو امیدوار نامزد کررکھا ہے۔
حزب اختلاف اگرچہ ایوانِ بالا میں معمولی برتری رکھتی ہے تاہم حفیہ رائے شماری کے ذریعے ہونے والے انتخابات میں بھی حیران کن نتائج کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے۔
گزشتہ ہفتے منتخب ہونے والے 48 نئے سینیٹرز 12 مارچ کو حلف اٹھائیں گے جس کے بعد اسی روز چیئرمین سینیٹ کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا۔
سو رکنی ایوان میں چیئرمین سینیٹ منتخب ہونے کے لیے اُمیدوار کو 51 ارکان کی حمایت درکار ہے۔
اپوزیشن کے پاس اس وقت سینیٹ میں 52 ووٹ ہیں جب کہ حکومتی اتحاد کے سینیٹرز کی تعداد 48 ہے۔
گیلانی یا سنجرانی سب کی نظریں 12 مارچ پر
چیئرمین سینیٹ کے دونوں امیدوار یوسف رضا گیلانی اور صادق سنجرانی اس سے قبل غیر متوقع نتائج دے چکے ہیں۔
یوسف رضا گیلانی نے حالیہ سینیٹ انتخابات میں غیر متوقع طور پر تحریکِ انصاف کے اُمیدوار کو شکست دی تھی جب کہ صادق سنجرانی بھی 2019 میں اپوزیشن کی واضح اکثریت کے باوجود اُن کی جانب سے لائی گئی تحریکِ عدم اعتماد کو ناکام بنا چکے ہیں۔
تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں بظاہر یوسف رضا گیلانی کو جیت جانا چاہیے۔ اُن کے بقول اگر صادق سنجرانی جیتے تو بہت سے لوگوں کو اس پر تعجب ہو گا جس طرح یوسف رضا گیلانی کے سینیٹر منتخب ہونے پر سب کو حیرت ہوئی تھی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اس سے قبل واضح اکثریت رکھنے کے باوجود صادق سنجرانی کے خلاف حزب اختلاف کی تحریک ناکام ہوئی تھی۔ اس کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ صادق سنجرانی حیرت انگیز نتائج دے سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ فی الحال چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے حوالے سے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا البتہ یوسف رضا گیلانی کو عددی اعتبار سے کچھ برتری حاصل ہے۔
'حکومتی اُمیدوار کی جیت اپ سیٹ نہیں ہو گی'
سینئر تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری کہتے ہیں کہ سینیٹ چیئرمین کا انتخاب ہمیشہ سے اہمیت کا حامل رہا ہے اور اس وقت چونکہ حکومت و اپوزیشن میں جھگڑا زیادہ شدید ہے اس وجہ سے فریقین پوری قوت سے یہ الیکشن لڑ رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اگر حزبِ اختلاف کا امیدوار جیتتا ہے تو اس سے حکومت کو سبکی ہو گی۔ اسی طرح اگر حکومتی اُمیدوار جیتا تو اس کے اعتماد میں اضافہ ہو گا۔
حسن عسکری کہتے ہیں کہ حکومتی امیدوار کی جیت اپ سیٹ نہیں ہوگی اور صادق سنجرانی اگر بلوچستان کی چھوٹی جماعتوں کی حمایت حاصل کرلیتے ہیں تو ان کا جیتنا ممکن ہوسکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس کے لیے یہ دیکھا جائے گا کہ بلوچستان کے امیدوار اپنے صوبے کے چیئرمین سینیٹ کے حکومتی امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں یا قومی سیاست میں وزن رکھنے والے حزبِ اختلاف امیدوار کی حمایت کرتے ہیں۔
تجزیہ کار زاہد حسین کہتے ہیں کہ عددی اعتبار سے واضح برتری نہ ہونے کے باعث چیئرمین سینیٹ کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سخت مقابلہ ہے اور موجودہ حالات میں اس بارے میں پیش گوئی کرنا ممکن نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ آزاد سینیٹرز اور جماعتِ اسلامی کے بائیکاٹ کے باعث حزبِ اختلاف کی قلیل اکثریت اقلیت میں بدل سکتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ایسے حالات میں جب حزبِ اختلاف حکومت مخالف تحریک چلا رہی ہے یوسف رضا گیلانی کا چیئرمین سینیٹ منتخب ہونا کافی اثرات چھوڑے گا۔
حکومتی امیدوار کے جیتنے کی صورت میں حسن عسکری کہتے ہیں کہ اس سے الزامات کی سیاست اور بیان بازی کا نیا سلسلہ شروع ہو گا۔
'لانگ مارچ سے حکومت کمزور ہوگی گرے گی نہیں'
مظہر عباس کہتے ہیں کہ چیئرمین سینیٹ انتخابی سیاست میں صدر اور وزیراعظم کے بعد تیسرا بڑا عہدہ ہے جو کہ قانون سازی میں متحرک کردار ادا کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حزبِ اختلاف چیئرمین سینیٹ کا انتخاب جیت کر ایوان بالا میں نہ صرف اپنی برتری ثابت کرے گی بلکہ حکومت کے لیے قانون سازی و پارلیمانی امور میں مشکلات بھی پیدا کر سکے گی۔
وہ کہتے ہیں کہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں کامیابی کی صورت میں حزبِ اختلاف کو پنجاب اور وفاق میں تحریکِ عدمِ اعتماد لانے کا حوصلہ ملے گا۔
مظہر عباس کے بقول حزبِ اختلاف کا بنیادی نکتہ حکومت اور عمران خان کو پریشان رکھنا ہے۔ لہذٰا حزبِ اختلاف کی حکمت عملی حکومت گرانے سے زیادہ حکومت کو گھبرائے رکھنے کی لگتی ہے۔
دوسری جانب وہ کہتے ہیں کہ حکومت کرپشن مخالف بیانیے کو لے کر آگے بڑھ رہی ہے اور وزیرِ اعظم عمران خان کے اعتماد کے ووٹ کی طرح چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں حزبِ اختلاف کو جواب دینا چاہتی ہے۔
حسن عسکری کہتے ہیں کہ چیئرمین سینیٹ کا انتخاب جیتنے کی صورت میں حزبِ اختلاف کا اعتماد بڑھے گا اور ان کا مطالبہ ہو گا کہ حکومت مستعفی ہو اور نئے انتخابات کروائے جائیں۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت کو گرانے کے لیے حزبِ اختلاف نے پہلے سے لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا ہے اور وہ اس مقصد کے لیے ہر حربہ استعمال کریں گے۔
زاہد حسین کہتے ہیں کہ پنجاب میں عدم اعتماد کی تحریک لانے پر حزب اختلاف کی جماعتوں میں اختلاف پایا جاتا ہے اور وہ نہیں سمجھتے کہ اپوزیشن فوری طور پر پنجاب یا وفاق میں عدم اعتماد کی تحاریک لائے گی۔
وہ کہتے ہیں کہ حزب اختلاف نے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ اور دھرنے کا اعلان بھی کررکھا ہے البتہ یہ واضع نہیں ہے کہ دھرنا کتنے روز تک جاری رہے گا۔
ان کے مطابق حزب اختلاف میں دھرنے کو طویل عرصے تک جاری رکھنے پر اتفاق نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ حزب اختلاف کے اسمبلیوں سے مستعفی نہ ہونے کے فیصلے نے انہیں فائدہ پہنچایا ہے اور لانگ مارچ کا مقصد بھی حکومت کو دباؤ میں لانا ہے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ لانگ مارچ سے حکومت پر دباؤ ضرور بڑھے گا لیکن حکومت کے خاتمے کے امکانات کم ہیں۔
غفور حیدری کو پیش کش، مفاہمت یا اپوزیشن میں اختلاف کی کوشش؟
حزبِ اختلاف نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولانا عبدالغفور حیدری کو ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا امیدوار نامزد کیا ہے تاہم حکومت تاحال اس منصب کے لیے اپنا امیدوار سامنے نہیں لائی ہے۔
منگل کو چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور حکومتی رہنما پرویز خٹک نے مولانا عبدالغفور حیدری سے ملاقات کی۔ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پرویز خٹک نے کہا کہ حکومت نے غفور حیدری کو ڈپٹی چیئرمین کی پیش کش کی ہے۔
حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے حکومت کی اس پیش کش کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے اتحاد کو نقصان پہنچانے کی کوشش قرار دیا ہے۔
مولانا عبدالغفور حیدری نے حکومتی پیش کش کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ صادق سنجرانی اور پرویز خٹک کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں اس معاملے پر کوئی بات نہیں ہوئی۔