پاکستان کے الیکشن کمیشن نے 'متحدہ قبائل پارٹی' نامی جماعت کی عام انتخابات ملتوی کرنے اور قبائلی علاقوں سے صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر ایک ساتھ انتخابات کرانے کی استدعا مسترد کردی ہے۔
چیف الیکشن کمیشن کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پیر کو انتخابات ملتوی کرنے سے متعلق تین درخواستوں کی سماعت کی۔
درخواستوں کی سماعت کے دوران 'متحدہ قبائل پارٹی' کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ اگر فاٹا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات نہ کرائے گئے تو 15 فی صد عوام نمائندگی سے محروم رہیں گے اور ایک سال تک صوبائی اسمبلی میں ان کی نمائندگی نہیں ہوگی۔
فروغ نسیم نے کہا کہ جنوبی پنجاب کے لوگوں کی الیکشن ملتوی کرنے کی درخواستیں بھی انہی کی درخواست کا حصہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جنوبی پنجاب میں جولائی میں شدید گرمی پڑتی ہے اور ایسے میں وہاں انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ اگر سردیوں میں کرائیں گے تو کاغان میں بہت سردی ہو گی۔ کاغان کے عوام کہیں گے کہ باہر نہیں نکل سکتے۔ جولائی میں تو ساون ہو گا۔
ممبر بلوچستان شکیل بلوچ نے کہا کہ گزشتہ الیکشن مئی میں ہوئے تھے۔ اس وقت بھی بہت گرمی تھی۔
اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ مئی کی نسبت جولائی میں زیادہ گرمی ہوتی ہے۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ جنوبی پنجاب کی پٹیشن کا فاٹا کے حالات سے کیا تعلق؟ فروغ نسیم نے کہا کہ دونوں میں ایک ہی استدعا کی گئی ہے۔ انتخابات اگر دو سے پانچ ماہ کے لیے ملتوی کر دیے جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ ایک سال بعد الیکشن سے پری پول دھاندلی ہو سکتی ہے۔
اس موقع پر درخواست گزار چوہدری رمضان اور شاہ محمد جتوئی کی انتخابات ملتوی کرنے کے حوالے سے درخواستوں کی بھی سماعت ہوئی۔
وکیل کامران مرتضیٰ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر بغیر بحث کے آئینی ترمیم ہو گی تو ایسے ہی مسائل پیدا ہوں گے۔ ایک دن انتخابات کرانے کا مقصد یہ ہے کہ کوئی اثر انداز نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ ضمنی انتخاب کی مثالیں موجود ہیں۔ جس کی حکومت ہو، کامیابی اسی کو ملتی ہے۔ یہ نہیں کہتا کہ انتخابات ملتوی کیے جائیں بلکہ انتخاب سب جگہ ایک ہی دن کرائے جائیں۔
بعد ازاں الیکشن کمیشن نے 'متحدہ قبائل پارٹی' کی عام انتخابات ملتوی کرنے اور 'فاٹا' سے قومی و صوبائی اسمبلی کی تمام نشستوں پر ایک ساتھ الیکشن کرانے کی استدعا پر فیصلہ سناتے ہوئے درخواست مسترد کردی۔
وفاق کے زیرِ انتظام سابق قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کے صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام کے لیے گزشتہ ماہ کی جانے والی آئینی ترمیم کے بعد خیبر پختونخوا اسمبلی میں بھی قبائلی علاقوں کی نشستیں مختص کی گئی ہیں۔
آئین کے آرٹیکل 106 (1) کے تحت اب خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی 145 ارکان پر مشتمل ہوگی جس میں 115 جنرل نشستیں، 26 خواتین کی مخصوص نشستیں اور چار نشستیں غیر مسلموں کے لیے ہوں گی۔
فاٹا کی خیبر پختونخوا اسمبلی میں 16 جنرل نشستیں، چار خواتین کی نشستیں اور ایک اقلیتی نشست ہوگی۔
تاہم فاٹا اصلاحات کمیٹی کی سفارشات کے مطابق انضمام کے بعد فاٹا کی قومی اسمبلی کی نشستوں پر الیکشن عام انتخابات کے ساتھ ہوں گے جب کہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر انتخابات 2019ء میں کرائے جائیں گے۔
'متحدہ قبائل پارٹی' نامی جماعت اس آئینی ترمیم کے بعد سے قبائلی علاقوں میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات قومی اسمبلی کے ساتھ کرانے کا مطالبہ کر رہی ہے اور اس کے لیے جماعت کے کارکن اسلام آباد میں کئی بار احتجاج بھی کرچکے ہیں۔
تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں میں صوبائی اسمبلی کی حلقہ بندیوں کے لیے وقت درکار ہے جس کے باعث فوری انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔