رسائی کے لنکس

ایم کیو ایم کے دھڑوں کے رابطے، کیا 'پرانی متحدہ' واپس آ رہی ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے گہری سانس لی، پہلو بدلا، سگریٹ سلگائی اور ٹھہر ٹھہر کر کہا، "آپس میں تلخی کا عنصر کم ہو رہا ہے۔ سب اکھٹے ہو بھی سکتے ہیں۔ مگر فی الحال آملیٹ سے انڈا نہیں بن سکتا۔"

تو پھر کئی دہائیوں تک (محاورتاً) ایک دوسرے کے 'جانی دشمن' سمجھے جانے والے 'سیاسی مخالفین' کی اچانک شروع ہوجانے والی ملاقاتوں اور رابطوں کا سلسلہ کیوں اور کیسے شروع ہوا؟ کراچی میں کیا ہونے والا ہے؟ یہی جاننے کے لیے وائس آف امریکہ نے ایک ماہ سے زیادہ عرصے تک کئی نشستوں میں کراچی کے ان تمام رہنماؤں سے گفتگو کی۔

کراچی کی سیاست میں نئی 'معنی خیز پیش رفت' تب ہوئی جب تقریباً پانچ برس سے دبئی میں مقیم سابق گورنر سندھ عشرت العباد نے گزشتہ برس اکتوبر کے وسط میں اچانک اپنی 'سیاسی چپ' کا روزہ توڑا۔ وہ تب سے ہی ایک بار پھر سرگرم بھی نظر آرہے ہیں اور خبروں میں بھی ہیں۔

ڈاکٹر عشرت العباد کا تعلق 1980 کی دہائی کے وسط میں الطاف حسین کی قیادت میں کراچی کے منظر نامے پر ابھرنے والی مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے رہا ، جو آگے چل کر متحدہ قومی موومنٹ بن گئی۔

وہ 27 دسمبر 2002 کو سندھ کے 29ویں گورنر مقرر ہوئے۔ اگرچہ انہوں نے 27 جون 2011 کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا مگر اس وقت کے صدر آصف زرداری نے استعفیٰ منظور نہیں کیا۔ 19 جولائی 2011 کو وہ اپنے عہدے پر بحال ہوئے اور 9 نومبر 2016 تک سندھ کے گورنر رہے۔

وہ ملک کی تاریخ میں سب سے طویل مُدّت تک گورنر کے عہدے پر فائز رہے۔ آخر کار نواز شریف حکومت نے انہیں سبک دوش کر دیا۔

ایم کیو ایم میں دھڑے بندی کی تاریخ

ایک وقت میں ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ایم کیو ایم 1991 میں پہلی بار اُس وقت دھڑے بندی اور اندرونی بحران کا شکار دکھائی دی جب الطاف حسین کا یہ مؤقف سامنے آیا کہ انہوں نے 'مجرمانہ سرگرمیوں کی شکایات اور الزامات' کی بنا پر پارٹی کے دو مرکزی رہنماؤں آفاق احمد اور عامر خان کو پارٹی سے نکال دیا ہے۔

دوسری جانب ایم کیو ایم حقیقی قائم کرنے والے آفاق احمد ہمیشہ یہی مؤقف اپنائے رہے کہ الطاف حسین مہاجر سیاست سے دست بردار ہوگئے ہیں لیکن وہ اپنی قوم پرست سیاست پر قائم ہیں اس لیے انہوں نے ایم کیو ایم حقیقی کی بنیاد رکھی۔

آفاق احمد اور عامر خان ایم کیو ایم حقیقی کی قیادت کرتے رہے اور متحدہ قومی موومنٹ کے زمانۂ اقتدار میں کئی برس تک جیل میں اسیر بھی رہے۔ دونوں پر سیاسی کارکنوں یا ان کے رشتہ داروں کے قتل، اقدامِ قتل، اغوا، غیر قانونی اسلحہ اور تشدد جیسے کئی مقدمات درج تھے۔

آٹھ برس تک جیل میں رہنے کے بعد عامر خان 24 مئی 2011 کو رہا ہوئے۔ تین ہی دن بعد انہوں نے آفاق احمد سے علیحدگی اختیار کی اور 20 سال کی مخالفت و محاذ آرائی ختم کرتے ہوئے ایک بار پھر الطاف حسین کی ایم کیو ایم میں شامل ہوگئے۔

الطاف حسین کی تنظیم کو دوسرے سنگین بحران کا سامنا 14 اگست 2013 کو تب کرنا پڑا جب پارٹی کے مقبول ترین میئر (ناظم کراچی اور اس وقت کے سینیٹر) مصطفیٰ کمال الطاف حسین کو چھوڑ کر دبئی روانہ ہوگئے۔ ڈیڑھ ماہ بعد (پاکستان میں پارٹی کی نمبر ون پوزیشن پر فائز) انیس قائم خانی بھی مصطفیٰ کمال سے جا ملے۔

پھر ایم کیو ایم بحران کا شکار تب دکھائی دی جب 22 اپریل 2015 کو الطاف حسین نے ڈاکٹر عشرت العباد سے ہی 'لاتعلقی' کا اعلان کر دیا۔ مقامی نجی ٹی وی 'جیو نیوز' سے گفتگو میں الطاف حسین نے کہا کہ عشرت العباد 'وفاق کے نمائندہ' ہیں اُن کا پارٹی یا اس کی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں رہا۔

ایم کیو ایم کی مشکلات اُس وقت اور بڑھ گئیں جب تین مارچ 2016 کو مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی دونوں نے اچانک دبئی سے وطن واپس پہنچتے ہی الطاف حسین پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے اُن سے علیحدگی کا اعلان کیا۔

محض بیس روز بعد 23 مارچ 2016 کو مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی نے اپنی نئی سیاسی جماعت پاک سر زمین پارٹی (پی ایس پی) کے قیام کا اعلان کیا۔

بائیس اگست 2016 کو ایک تقریر کی وجہ سے الطاف حسین کے خلاف پابندیاں عائد کردی گئیں۔ ریاست کے حکام کا مؤقف تھا کہ الطاف حسین نے پاکستان مخالف اس خطاب میں ملک توڑنے، ریاست کی سلامتی کے اداروں کے خلاف اور پاکستان مخالف انداز و الفاظ استعمال کیے۔ بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر الطاف حسین کی تقاریر ٹی وی پر نشر کرنے اور اخبارات میں شائع کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔

الطاف حسین کی 22 اگست 2016 کی تقریر کے بعد پارٹی نے اپنے ہی قائد سے علیحدگی اختیار کی اور ڈاکٹر فاروق ستار کو نیا سربراہ منتخب کرلیا۔
الطاف حسین کی 22 اگست 2016 کی تقریر کے بعد پارٹی نے اپنے ہی قائد سے علیحدگی اختیار کی اور ڈاکٹر فاروق ستار کو نیا سربراہ منتخب کرلیا۔

حتّیٰ کہ 23 اگست 2016 کو اس وقت پارٹی کے سب سے سینئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستّار کو اعلان کرنا پڑا کہ ایم کیو ایم اپنے ہی قائد کے خیالات سے متفق نہیں اور نہ ہی ملک و فوج کے خلاف ان کی تقاریر اور خطابات کی حمایت کرتی ہے۔ بالآخر پارٹی نے اپنے ہی قائد سے علیحدگی اختیار کر لی اور ڈاکٹر فاروق ستّار کو نیا سربراہ منتخب کرلیا۔

ڈاکٹر فاروق ستّار نے وی او اے کو بتایا کہ اُن کی سربراہی میں بھی پارٹی کے اندرونی اختلافات مسلسل جاری رہے جو بالآخر پانچ فروری 2018 کو منظر عام پر آئے۔

تب پارٹی نے ڈاکٹر فاروق ستّار کو بھی رہنما تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔

پندرہ جون 2018 کو ڈاکٹر فاروق ستّار بطور سربراہ واپس پارٹی کے نئے مرکز بہادر آباد پہنچے لیکن ایم کیو ایم یہ تنازع الیکشن کمیشن لے گئی۔ الیکشن کمیشن نے بھی فاروق ستّار کو پارٹی کا سربراہ ماننے سے انکار کردیا اور یوں 10 نومبر 2018 کو فاروق ستار کی بنیادی رکنیت بھی ختم کر دی گئی۔

ایم کیو ایم کا احتجاج
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:03 0:00

اب ایک جانب ایم کیو ایم پاکستان نے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو سربراہ منتخب کرلیا تو دوسری طرف فاروق ستّار نے ایم کیو ایم بحالی کمیٹی تشکیل دے دی۔

ایم کیو ایم اور اس سے جڑی یہ دھڑے بندھیاں، اختلافات اور اس سب سے جڑا کئی دہائیوں کا تشدد، سب کچھ اہل کراچی کے لیے ایک ایسا سیاسی ماضی رہا ہے کہ اب ایم کیو ایم سے متعلق ذرا سی بھی ہِل جُل پر بہت سے لوگوں کے ماتھے پر بل پڑتے ہیں۔

حالیہ پیش رفت اور اُس کے اثرات

ایسے میں جب ایم کیو ایم پر سکوت طاری ہے، ڈاکٹر عشرت العباد کا اچانک متحرک ہوجانا اور پھر اُس کے تسلسل میں ہونے والی کئی 'ملاقاتیں' کراچی سے راولپنڈی تک پورے پاکستان کی توجّہ سمیٹ رہی ہیں۔

اٹھارہ اکتوبر 2021 کو سابق گورنر عشرت العباد نے اچانک ہی سیاست میں واپسی کا اشارہ دیا۔ ان کے بقول، "پارٹی نے خود کو تباہی کی طرف دھکیل دیا۔ چند انتہا پسند خیالات والوں نے اسے ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔"

پاکستان کے انگریزی اخبار 'دی نیوز' اور جیو ٹی وی کو ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ کراچی کی 'نمایاں' شخصیات کے مشورے اور تجویز پر وہ سیاست میں واپسی پر غور کر رہے ہیں۔

اخبار کا کہنا تھا کہ اگرچہ جب تک ڈاکٹر عشرت العباد سندھ کے گورنر رہے اُن کا خاندان لندن میں مقیم رہا مگر اپنی سبکدوشی کے بعد انہوں نے لندن منتقل ہونے کے بجائے دبئی میں رہائش کو ترجیح دی کیوں کہ وہ 'تنازعات سے دور' رہنا چاہتے تھے۔

یاد رہے کہ عشرت العباد کی لندن میں موجود رہائش گاہ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کے گھر سے 10 منٹ کی دوری پر واقع ہے۔

مخالفین میں اچانک قربت

عشرت العباد کے انٹرویو کی دھول ابھی بیٹھی بھی نہیں تھی کہ 11 نومبر کو ڈاکٹر فاروق ستّار 'اچانک' عشرت العباد سے ملنے دبئی جا پہنچے۔

دونوں رہنماؤں نے وی او اے کو بتایا کہ یہ ملاقات 13 نومبر تک جاری رہی جسے دانستہ طور پر 'پبلک' بھی کیا گیا۔

اسی دوران ایم کیو ایم کے سابق میئر کراچی وسیم اختر نے بھی دبئی میں عشرت العباد سے ملاقات کی لیکن اس ملاقات کو ابتداً خفیہ رکھا گیا۔ مگر اب ڈاکٹر خالد مقبول نے وی او اے سے گفتگو میں تصدیق کی ہے کہ وسیم اختر بھی عشرت العباد سے مل چکے ہیں۔

خالد مقبول نے یہ انکشاف بھی کیا کہ وہ خود بھی سابق گورنر سے مسلسل رابطے میں ہیں۔

ایم کیو ایم اور ایم کیو ایم حقیقی میں قربتیں

ابھی عشرت العباد اور وسیم اختر کی ملاقاتوں کی مکمل تفصیلات سامنے نہیں آئی تھیں کہ ایک اور پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب سات جنوری 2022 کو آفاق احمد کی ایم کیو ایم حقیقی کے ایک وفد نے ایم کیو ایم پاکستان کے صدر دفتر بہادر آباد کا دورہ کیا۔

بیس سال تک ایک دوسرے پر 'کارکنان کے قتل کے الزامات عائد کرنے والی' متحدہ قومی موومنٹ اور ایم کیو ایم حقیقی قریب آتی دکھائی دیں۔

آٹھ برس تک جیل میں رہنے کے بعد عامر خان 24 مئی 2011 کو رہا ہوئے۔
آٹھ برس تک جیل میں رہنے کے بعد عامر خان 24 مئی 2011 کو رہا ہوئے۔

روزنامہ 'جنگ' کے مطابق ایم کیو ایم حقیقی کے وفد نے خالد مقبول صدیقی کو مشترکہ جدوجہد کے لیے آفاق احمد کا پیغام پہنچایا جب کہ خالد مقبول نے وفد کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس عزم کو خوش آئند قرار دیا۔

آفاق احمد نے وی او اے سے گفتگو میں اس کی تصدیق بھی کی۔

ان ملاقاتوں اور پیغام رسانیوں کا سلسلہ یہیں ختم نہ ہوا۔ آٹھ جنوری 2022 کو ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما عامر خان نے دبئی میں ڈاکٹر عشرت العباد سے ملاقات کی اور عشرت العباد نے وی او اے سے گفتگو میں اس ملاقات کی تصدیق بھی کی۔

اب اتنے سب کچھ کہ بعد یہ جاننا ضروری ہو گیا تھا کہ کراچی کی سیاست آخر کیا رخ اختیار کر رہی ہے؟ آگے چل کر کیا ہونے والا ہے؟

سب کیا چاہتے ہیں؟

وی او اے سے گفتگو میں ڈاکٹر عشرت العباد نے کہا کہ کراچی ہمارا 'شو کیس' ہے اور جب ہم اسے معیشت کا حب سمجھتے ہیں تو کراچی کو اچھی طرح پریزینٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ان کے بقول شہر میں سیاسی استحکام اور مایوسی کا احساس ختم کرنے کی اجتماعی کوششیں درکار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت سے عوام کو جو اُمیدیں وابستہ تھیں وہ پوری نہیں ہوسکیں اور موجودہ سیاسی و اقتصادی صورت حال سے عوام مایوس ہیں۔

جب سابق گورنر سے ایم ایم کیو ایم رہنماؤں کی حالیہ ملاقاتوں سے متعلق سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا "جب مختلف سیاسی جماعتوں میں اتحاد ہوسکتا ہے تو ایک ہی جماعت کے مختلف لوگوں میں کیوں نہیں ہوسکتا لیکن کراچی میں سب منقسم سمتوں میں چل رہے ہیں۔ الگ الگ کشتیوں میں سوار ہو کر مایوسی ختم کر کے استحکام قائم کرنے کا تاثر شاید نہ آئے۔ مگر ضم ہونا، ظاہر ہے کہ (فی الحال) قابل عمل نہیں ہے۔ متبادل کے طور پر 'ورکنگ ریلیشن شپ' ہے۔

ان کے بقول جو بات پہلے نہیں کہی جاتی تھی اب وہ بیانیہ تقریباً ملتا جلتا سب کا ہوتا جا رہا ہے۔ تلخی کا عنصر بھی کم ہو رہا ہے۔

اس سوال پر کہ کیا حالیہ ملاقاتیں اور کوششیں کسی 'اسکرپٹ' یا 'فون کال' کا نتیجہ ہیں؟ ڈاکٹر عشرت العباد نے کہا کہ کوئی بھی شہری ملک میں ہو یا بیرونِ ملک جب کراچی یا پاکستان کے حالات پر غور کرتا ہوگا تو پہلی سوچ یہی آتی ہے کہ یہ ایسے نہیں چلے گا یہ سب کو مل کر کرنا چاہیے۔ اسٹیبلشمنٹ بھی ایسے ہی سوچتی ہوگی۔ تو اگر وہ کہہ رہے ہیں تو عقل کی بات کر رہے ہیں ناں!

ان کے بقول، "کوئی کہہ رہا کہ بھئی آپ مل کر کام کریں تو وہ کوئی آرڈر نہیں دے رہا۔ اب آپ اس کو کچھ بھی نام دے دیں۔ ایک اچھی تجویز کہہ دیں یا احکامات جو چاہیں نام دے دیں۔"

کیا یہ سب کچھ آئندہ عام انتخابات میں کسی اتحاد کی شکل اختیار کر سکتا ہے؟ اس سوال پر عشرت العباد نے کہا کہ یہ بالکل ممکن ہے۔ وقت کے ساتھ یہ سوچ بنی ہے کہ ایک محلّے میں رہتے ہوئے ہر وقت لڑ نہیں سکتے۔ کسی سے بھی بات کرلیں کوئی بھی ماضی کی تلخی میں نہیں جائے گا یہی کہے گا کہ مل کر کام کریں۔ اور سب کو معلوم ہے کہ مل کر کام کرنے سے ہی کچھ ملے گا۔

ایم کیو ایم کیا کہتی ہے؟

ایم کیو ایم کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اس سارے عمل کو 'سیاسی ہلچل' یا 'اہم پیش رفت' ماننے پر تیار نہیں۔

وی او اے سے گفتگو میں ڈاکٹر خالد مقبول نے کہا کہ عامر خان نجی مصروفیات کے لیے دبئی گئے ہیں جہاں ان کی عشرت العباد کے ساتھ ملاقات ہوئی ہے۔

ان کے بقول، عشرت العباد ایم کیو ایم کا حصّہ ہیں گو کہ گورنر شپ کے وقت انہوں نے سرکاری تقاضے کے تحت پارٹی سے استعفیٰ ضرور دیا تھا مگر وہ کسی اور سیاسی جماعت میں نہیں گئے اور نہ ہی انہوں نے ایسا کوئی اشارہ دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان واپس آ کر سیاست میں فعال ہونے کا فیصلہ خالصتاً عشرت العباد کا اپنا ہو گا۔ لیکن وہ رابطے میں ہیں اور کال کرتے رہتے ہیں۔

ایم کیو ایم حقیقی کے وفد کی بہادر آباد آمد پر خالد مقبول نے کہا کہ 'وفد نے آنا چاہا تو ہم نے بہادر آباد بلوایا تھا۔ گزشتہ 14 سال سے (سندھ میں بلدیاتی اداروں کے بل کی منظوری اور دیگر حکومتی اقدامات سمیت) جو کچھ ہو رہا ہے اس پر ایم کیو ایم حقیقی کے وفد نے بھی پریشانی کا ذکر کیا تھا۔

دونوں جماعتوں کے انضمام سے متعلق سوال پر خالد مقبول کا کہنا تھا کہ حقیقی سے لے کر پی ایس پی تک کچھ لوگ ادھر ادھر گئے مگر سیاسی میدان میں انہیں کیا کامیابی ملی؟ کوئی بھی اپنی مرضی سے پارٹی سے الگ نہیں ہوا۔ مصنوعی طریقے سے یہ دھڑے بنے لیکن ایم کیو ایم مستقل کہہ رہی ہے کہ اگر کسی کو بھی لگتا ہے کہ اسے ایم کیو ایم میں ہی ہونا چاہیے تھا تو وہ واپس آ سکتا ہے۔ ہم غیر مشروط طور پر سب کو لینے کو تیار ہیں۔

ایم کیو ایم تقسیم کرکے جو دھڑے بھی بنائے گئے اگر اُن کی 'سرپرستی' ختم ہو جائے تو الگ ہونے والے رہنماؤں کو کتنے ووٹ ملیں گے؟ وہ کتنی دیر تک سروائیو کریں گے؟ ایسے رہنماؤں کے لیے بھی دروازے کھلے ہیں جو کسی مجبوری کی وجہ سے گئے۔ چونکہ فائلیں کھلی ہوتی ہیں اور ڈرایا جاتا ہے۔

حالیہ ملاقاتوں کے سیاسی اتحاد میں ڈھلنے کے امکان پر خالد مقبول نے کہا کہ عشرت العباد سے ہونے والی ملاقاتوں کا معاملہ مختلف ہے۔ وہ طویل عرصے تک بہت کامیاب اور مضبوط گورنر رہے ہیں اس لیے ان کو نظر انداز کرنا مشکل ہوتا ہے۔

جب خالد مقبول سے یہ پوچھا گیا کہ کیا ایم کیو ایم کے دروازے مصطفیٰ کمال کے لیے بھی کھلے ہیں؟ اس پر انہوں نے کہا کہ مصطفیٰ کمال واپس اپنی جماعت میں لوٹ سکتے ہیں۔ پارٹی سے الگ ہونے والے کسی رہنما کے پاس ووٹ ہیں تو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی جاسکتی ہے۔ جن کے ووٹ نہیں اُن کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ تو نہیں ہوسکتی لیکن اُن کو تنظیم میں لیا جاسکتا ہے۔

دوسری جانب پی ایس پی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال نے اس سارے عمل کو غیر اہم قرار دیا ہے۔

وی او اے سے گفتگو میں مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ہمارے ووٹرز یہ سب ہر پندرہ دن بعد دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ سب لوگ اپنا اپنا وقت گزار چکے۔ یہ ملنا جلنا ( حالیہ ملاقاتیں) ہمارے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔

ان کے بقول، "ہمارا نظریہ ہے کہ ہم خود مہاجر ہیں مگر ہم مہاجر نام پر سیاست کرنا مہاجروں کے لیے زہرِ قاتل سمجھتے ہیں۔ اس شہر میں دوسری قومیتیں بھی ہیں پی ایس پی نے مہاجروں کے ساتھ ان تمام کمیونٹیز کو آپس میں جوڑا ہے جس کا سب سے زیادہ فائدہ مہاجروں کو ہوا جو شہر میں امن کی صورت میں ہے۔"

کراچی: مصطفیٰ کمال کے انکشافات، شہریوں کی نظر سے
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:40 0:00

انہوں نے کہا کہ پاک سرزمین پارٹی ایم کیو ایم کا دھڑا نہیں بلکہ ایک الگ شناخت رکھتی ہے۔ اگر ہم سے کوئی بات کرے گا تو چاہے یہ بات بند کمرے میں ہو یا کھلی سڑک پر ہمارا یہی مؤقف ہوگا۔

مصفطیٰ کمال نے کہا کہ چالیس سال پہلے سب لوگ اکھٹے ہوئے اور ایک جماعت بنی لیکن چند سو لوگ ارب پتی بن گئے۔ کراچی اجڑ گیا، شہدا قبرستان آباد ہو گئے، ہزاروں بچے لاپتا ہو گئے، ہزاروں خاندان تباہ و برباد ہو گئے، ہزاروں لوگ آپس میں لڑ مر گئے اور 11 مرتبہ الیکشن جیت کر، 14 سال گورنر رہ کر، 6 دفعہ وفاقی وزیر، چھ مرتبہ صوبائی وزیر اور آج یہ حالت ہے کہ کھلے ہوئے گٹر کا ڈھکن نہیں لگا سکتے۔

جب مصطفیٰ کمال سے سوال کیا گیا کہ آپ سب کے مسائل، شکایات، مشکلات ایک ہی جیسی ہیں تو پھر مل کر کام کرنے میں کیا حرج ہے؟ اس پر پی ایس پی کے سربراہ نے کہا کہ ایم کیو ایم تو اب بھی اقتدار میں ہے۔ گورنر، وزیرِ اعظم، آرمی چیف، صدر جس سے چاہیں ملتے ہیں۔ ابھی تو وہ ڈرائیونگ سیٹ پر ہیں۔ کراچی کا مسئلہ حل کر دیں۔ اس کے لیے آملیٹ سے انڈا بنانے کی کیا ضرورت ہے؟

رابطوں اور قربت کے نئے سلسلے پر مصطفیٰ کمال نے کہا کہ “ہم سے کسی نے نہ تو رابطہ کیا اور نہ اس سارے عمل میں ہماری کوئی شمولیت یا رائے ہے۔ مگر ہمیں کسی کے بھی کسی سے ملنے پر کوئی اعتراض نہیں۔ سب کا حق ہے جس کا جس سے دل چاہے ملتا رہے۔ ہم سے کسی نے کوئی بات نہیں کی۔"

آفاق احمد کیا کہتے ہیں؟

مصطفیٰ کمال حالیہ سیاسی رابطوں سے تو انکار کر رہے ہیں مگر ایم کیو ایم حقیقی کے سربراہ آفاق احمد نے وی او اے سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ اس نئی مشترکہ کوشش کے لیے ان کا رابطہ مصطفیٰ کمال سے بھی ہوا ہے۔

آفاق احمد کے بقول، "میں نے محسوس کیا ہے کہ کراچی کی (قیادت میں) تقسیم کا فائدہ اٹھایا جا رہا ہے اور سندھ کے شہری علاقے اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ شہر کے خلاف جو سازشیں کر رہے ہیں اُنہیں یہ پیغام دیا جاسکتا ہے کہ اگر ہمارے ساتھ لسّانی بنیادوں پر زیادتی ہوگی تو اس کے خلاف ہم سب ایک ہیں۔

ایم کیو ایم حقیقی کے سربراہ نے بتایا کہ انہوں نے 26 دسمبر 2021 کو کراچی میں جلسے سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ اگر ان کی وجہ سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو وہ سب سے معافی مانگتے ہیں، جس کے بعد انہوں نے اپنا ایک وفد فاروق ستّار اور خالد مقبول صدیقی کے پاس بھیجا اور مصطفیٰ کمال سے ان کے لوگ فون پر رابطے میں ہیں۔

کراچی کے ’مکا چوک‘ کی جھلکیاں
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:03 0:00

آفاق احمد نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ پاکستان میں فیصلہ کرنے والی قوتیں مہاجر سیاست کو مذہبی سیاست سے بدلنا چاہتی ہیں جسے ہمیں مل کر روکنا ہے۔

سب کو 'یکجا' کرنے کے سوال پر آفاق احمد نے کہا کہ ہم سب نے جب سیاست کا آغاز کیا تو سب کے ہاتھوں میں یہی مہاجر پرچم تھا۔ شروع تو سب نے مدَر پارٹی (ایم کیو ایم) سے ہی کیا تھا۔ تو اگر ہم سب کو متحد ہونا ہے تو مدَر پارٹی کی جانب ہی پلٹنا پڑے گا۔ میری بھی خواہش ہے اور قوم بھی یہی چاہتی ہے کہ ایم کیو ایم کو یکجا کرلیا جائے۔

آفاق احمد کے مطابق اگر ایک پلیٹ فارم پر متحد نہ بھی ہوسکے تو کم از کم اس ایک نکتے پر تو جمع ہوجائیں کہ کوئی مشترکۂ حکمت عملی بنائیں۔ اس عمل میں سابق گورنر سندھ عشرت العباد کا کردار اہم ہے۔ ان کے بقول متحدہ کے تمام لوگ ان سے رابطے میں ہیں اور ممکن ہے کہ عشرت العباد آگے چل کر اپنا کوئی کردار ادا کریں۔

متحد ہو گئے تو قیادت کون کرے گا؟

ایم کیو ایم کے دھڑوں کے انضمام کی صورت میں قیادت کے سوال پر آفاق احمد نے کہا کہ "ہم سب کا مزاج جمہوری تو ہے ہی نہیں۔ ہم سب تحریک (مہاجر قومی موومنٹ) سے آئے۔ آغاز سے ہی سب کی تحریک کی تربیت ہوئی۔ تو لیڈر ووٹ سے تو 'قبولیت' سے ہی بنے گا۔"

آفاق احمد نے کہا کہ جب الطاف حسین، آفاق احمد، خالد مقبول یا فاروق ستّار نہیں تھے تب بھی ممتاز بھٹّو کے زمانے کا لسّانی بل آیا تھا جس کے بعد رئیس امروہوی قوم کی قیادت کرتے رہے۔ چاہے وہ حادثاتی طور پر لیڈر بنے مگر لیڈر شپ بن گئی تھی۔ اب بھی قیادت تو نکل آئے گی مگر یہ فیصلہ وقت کرے گا۔

ایم کیو ایم کے ماضی کے رہنماؤں کی حالیہ ملاقاتوں سے متعلق ابتدا میں تو سوائے عشرت العباد اور فاروق ستّار کے تمام ہی کھلاڑی یہ تاثّر دیتے رہے کہ ان ملاقاتوں اور ہل جُل کی سیاسی اہمیت بہت زیادہ نہیں۔ مگر اب تقریباً سب کے لہجوں میں آنے والی 'نرمی' سے اندازہ ہوتا ہے کہ کراچی سے راولپنڈی تک کوئی نہ کوئی تو آملیٹ سے واپس انڈا بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ کوشش کتنی کامیاب رہے گی آفاق احمد کے مشورے پر یہ فیصلہ ہم بھی وقت کے حوالے کر دیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG