مصر کے فوجی حکمرانوں کی جانب سے اقتدار کی سول حکومت کو عنقریب منتقلی کی یقین دہانیوں کے باوجود دارالحکومت قاہرہ سمیت ملک کے مختلف شہروں میں جمہوریت پسند مظاہرین کا احتجاج جاری ہے۔
جمعہ کو مصر کی حکمران 'سپریم کونسل آف دی آرمڈ فورسز' کی جانب سے ملک کے نئے وزیرِاعظم کے طور پر کمال گنزوری کی نامزدگی کے اعلان کے چند گھنٹے بعد قاہرہ کے تحریر چوک سمیت کئی شہروں میں ہزاروں افراد نے احتجاجی مظاہرے کیے۔
گنزوری اس سے قبل سابق مصری صدر حسنی مبارک کے عہد میں بھی وزارتِ عظمیٰ پر فائز رہ چکے ہیں۔ رواں برس کے آغاز میں اٹھنے والی عوامی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں تین عشروں تک برسرِ اقتدار رہنے کے بعد حسنی مبارک کو فروری میں مستعفی ہونا پڑا تھا۔
مصر کے سرکاری اخبار 'الاحرام'کا کہنا ہے کہ فوجی سپریم کونسل کے سربراہ فیلڈ مارشل حسین طنطاوی سے ملاقات کے بعد نامزد وزیرِاعظم مجوزہ قومی حکومت کی سربراہی کرنے پر راضی ہوگئے ہیں۔
تاہم فوجی کونسل کے اس اقدام کا مظاہرین پر کوئی اثر پڑتا نظر نہیں آرہا ہے جو گزشتہ ہفتے سے قاہرہ کے تحریر چوک میں جمع ہیں اور فوجی حکمرانوں کے فوری استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
جمعہ کو ہونے والے 'ملین مارچ' کو بعض مظاہرین نے فوجی حکمرانوں کے لیے اقتدار چھوڑنے کا "آخری موقع" قرار دیا۔ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی نے کہا ہے کہ 'تحریر اسکوائر' میں نمازِ جمعہ کی امامت کرنے والے خطیب نے مظاہرین پر زور دیا کہ وہ اپنے مطالبات کی منظوری تک چوک میں ڈٹے رہیں۔
مظاہرین اور پولیس کے درمیان گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ہونے والی جھڑپوں میں اب تک 41 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ پرتشدد مظاہروں کے بعد فیلڈ مارشل طنطاوی نے سولِ حکومت کو اقتدار کی منتقلی کا عمل تیز کرنے اور صدارتی انتخابات جولائی 2012ء سے قبل کرانے کا اعلان کیا تھا تاہم ان اعلانات کے باوجود مظاہرین نے احتجاج ختم کرنے سے انکار کردیا ہے۔
فوجی کونسل کے وعدے کے مطابق مصر میں پارلیمانی انتخابات کا عمل پیر سے شروع ہونے جارہا ہے۔ فیلڈ مارشل طنطاوی نے انتخابات کے شیڈول کے مطابق انعقاد کی بھی یقین دہانی کرائی ہے۔
دریں اثنا برطانوی خبر رساں ایجنسی کے مطابق جمعہ کو یورپی یونین نے مصر میں پیش آنے والے تشدد کے حالیہ واقعات کی مذمت کرتے ہوئے اقتدار کی سول حکومت کو فوری منتقلی کا مطالبہ کیا۔