نماز عشا کے بعد مظاہرے دوبارہ شروع ہوگئے ہیں۔ مصر میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔ اور صدر حسنی مبارک عنقریب قوم سے خطاب کرنے والے ہیں۔ مظاہرین کرفیو کے آرڈرز کو نظرانداز کرتے ہوئے سڑکوں پربدستور موجود ہیں۔ قاہرہ میں حکمراں پارٹی کا ہیڈکوارٹرز نذرآتش کردیا گیا ہے۔ حکومت نے پولیس کی مدد کے لیے فوج کو طلب کرلیا ہے۔
مصر میں صدر حسنی مبارک کے 30 سالہ دور حکمرانی کے خاتمے کے لیے احتجاج شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور جمعہ کو ہزاروں شہریوں نے حکومت مخالف مظاہروں میں شرکت کی۔
ملک بھر جاری احتجاج کے دوران چند بڑے مظاہرے وسطی قاہرہ میں ہوئے جہاں سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے اشک آور گیس اور ربر کی گولیوں کا استعمال کیا۔ احتجاج کی حوصلہ شکنی کے لیے شہر کی مرکزی شاہراہوں پر بڑی تعداد میں پولیس تعینات ہے۔
جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب سے ملک بھر میں انٹرنیٹ کے نظام کو معطل کر دیا گیا ہے کیوں کہ اسے حکومت کے خلاف مہم میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا رہا تھا۔ اس کے علاوہ موبائل فون کے ذریعے بھیجے جانے والے تحریری پیغامات پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے مصری رہنماؤں اور عوام سے کشیدگی کی شدت میں اضافہ نا کرنے کی درخواست کی ہے۔ اُنھوں نے کہا ہے کہ سراپا احتجاج شہریوں کی ’حقیقی شکایات‘ کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
طبی ذرائع کے مطابق، پر تشدد احتجاج کے دوران کم از کم 13افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ حکومت کے مطابق منگل کو شروع ہونے والے احتجاج کے بعد سے لگ بھگ آٹھ سو افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے تاہم انسانی حقوق کی نتظیموں کا دعویٰ ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد دو ہزار سے زائد ہے۔
اس سے قبل مصر کی سب سے بڑی کالعدم اپوزیشن جماعت ’مسلم برادرہوڈ‘ نے دعویٰ کیا تھا کہ چھاپوں کے دوران جماعت کے کم از کم پانچ سینئر رہنماؤں اور پانچ سابق اراکین پالیمان کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
بیاسی سالہ صدر حسنی مبارک نے مظاہروں کے آغاز کے بعد کوئی بیان نہیں دیا ہے۔
امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ مصر کی طویل المدت بہتری کے لیے سیاسی اصلاحات ناگزیر ہیں اور اُنھوں نے اپنے مصری ہم منصب سے ملک میں تبدیلیوں پر زور دیا ہے۔