واشنگٹن —
مصر میں گذشتہ برس معزول کیے گئے مصری صدر محمد مرسی کو عدلیہ کو بے عزت کرنے کے معاملے پر ایک اور مقدمے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس مقدمے میں صدر مرسی کے ساتھ ساتھ ان لبرل سرگرم کارکنوں کو بھی ٹرائل کا سامنا کرنا پڑے گا جنہوں نے صدر مرسی کی اسلام پسند حکومت کی مخالفت کرنے کے ساتھ ساتھ مصر کی نئی حکومت کی بھی مخالفت کی جسے آرمی کی حمایت حاصل ہے۔
گذشتہ برس معزول کیے جانے کے بعد سے مرسی پر قائم کیا جانے والا یہ چوتھا مقدمہ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ محمد مرسی پر قائم کیا گیا یہ نیا مقدمہ سیکولر ذہنیت کے ان عناصر کے لیے بھی ایک لمحہ ِ فکریہ ہے جنہوں نے 2011ء میں اس وقت کے مصری صدر حسنی مبارک کو اقتدار سے علیحدہ کرنے میں اپنا کردار ادا کیا تھا، اخوان المسلمون کے محمد مُرسی کو اس وقت تنقید کا نشانہ بنایا جب انکی حکومت تھی اور اس کے بعد مصر میں فوج کی حمایت یافتہ حکومت کو بھی تنقید کا ہدف بنائے رکھا۔
جن سیکولر افراد کو اس مقدمے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ان میں امر ہمزاوی، مصطفیٰ ال نگر اور الا عبدالفتح شامل ہیں۔ یہ تمام افراد مصری پارلیمان کے سابق اراکین رہ چکے ہیں۔
واضح رہے کہ اقتدار کے غلط استعمال کے الزامات کی بنیاد حزب مخالف کی طرف سے شروع ہونے والوں مظاہروں کے بعد گزشتہ سال جولائی میں فوج نے محمد مرسی کو صدارت کے منصب سے برطرف کر دیا۔
حکام اس کے بعد سے مرسی کی جماعت اخوان المسلمین کے خلاف کریک ڈاؤن اور اس کے کئی اعلیٰ رہنماؤں کو حراست میں لے چکے ہیں جب کہ اس جماعت کو دہشت گرد تنظیم بھی قرار دیے چکے ہیں۔
گذشتہ برس معزول کیے جانے کے بعد سے مرسی پر قائم کیا جانے والا یہ چوتھا مقدمہ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ محمد مرسی پر قائم کیا گیا یہ نیا مقدمہ سیکولر ذہنیت کے ان عناصر کے لیے بھی ایک لمحہ ِ فکریہ ہے جنہوں نے 2011ء میں اس وقت کے مصری صدر حسنی مبارک کو اقتدار سے علیحدہ کرنے میں اپنا کردار ادا کیا تھا، اخوان المسلمون کے محمد مُرسی کو اس وقت تنقید کا نشانہ بنایا جب انکی حکومت تھی اور اس کے بعد مصر میں فوج کی حمایت یافتہ حکومت کو بھی تنقید کا ہدف بنائے رکھا۔
جن سیکولر افراد کو اس مقدمے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ان میں امر ہمزاوی، مصطفیٰ ال نگر اور الا عبدالفتح شامل ہیں۔ یہ تمام افراد مصری پارلیمان کے سابق اراکین رہ چکے ہیں۔
واضح رہے کہ اقتدار کے غلط استعمال کے الزامات کی بنیاد حزب مخالف کی طرف سے شروع ہونے والوں مظاہروں کے بعد گزشتہ سال جولائی میں فوج نے محمد مرسی کو صدارت کے منصب سے برطرف کر دیا۔
حکام اس کے بعد سے مرسی کی جماعت اخوان المسلمین کے خلاف کریک ڈاؤن اور اس کے کئی اعلیٰ رہنماؤں کو حراست میں لے چکے ہیں جب کہ اس جماعت کو دہشت گرد تنظیم بھی قرار دیے چکے ہیں۔