مصر میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے پہلے مرحلے کے نتائج کے مطابق، خفیہ ادارے کے سابق جنرل کی سربراہی میں قائم حکومت کے حامی اتحادیوں کو واضح برتری حاصل ہو رہی ہے، جنھوں نے 120 نشتوں میں سے 60 نشتوں پر کامیابی حاصل کرلی ہے۔
ماہرین کی اکثریت کا کہنا ہے کہ نئی پارلیمنٹ حکومت کے حامی قانون سازوں پر مشتمل ہوگی اور ایک فاتح بلاک بنے گا جس کا مقصد پارلیمنٹ کے آئنی اختیارات کو محدود کرکے مضبوط صدارتی نظام کی راہ ہموار کی جائے گی۔
کچھ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انتخابی قوانین اس طرح مرتب کئے گئے تھے کہ ایسی پارلیمنٹ قائم ہو جس میں اپوزیشن کا وجود ہی نہ رہے۔
سنچری فاؤنڈیشن کے سنیئر فیلو مائیکل حنن کے مطابق، پارلیمنٹ کی 75 فیصد نشتیں آزاد امیدواروں کے لئے مختص کردی گئی تھیں اور صرف 20 فیصد نشتوں پر سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کا حق دیا گیا تھا۔
انھیں یقین ہے کہ مصر کے انتخابات اختیارات کی منتقلی کے لئے نہیں، بلکہ حکمرانوں کو زیادہ با اختیار بنانے کے لئے تھے۔
جارج ٹاون یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ایماد شاہین کہتے ہیں کہ ’جب سے مصر کے صدر عبدالفتح السیسی اقتدار میں آئے ہیں وہ مصری نظام کو غیر سیاسی بنانے میں مصروف ہیں۔ دراصل وہ نظام کو غیر متحرک کرنا چاہتے ہیں اور میرے خیال میں اسی لئے یہ نتیجہ نکلا ہے، جبکہ 2012 اور 2014 میں آئین نے پارلیمنٹ کو زیادہ اختیارات دئے تھے۔‘
لیکن عرب گلف اسٹیٹ انسٹیٹوٹ میں واشنگٹن ریجنل سنٹر آف اسٹرٹیجک اسٹیڈیز کے ڈائریکٹر عبدالمنعم کی دلیل ہے کہ نئی پارلیمنٹ کے انتخاب کے بعد مصر کی درست سمت میں رواں دواں ہوجائے گا۔
’اس کے بعد، مصر کے جمہوری ادارے مکمل ہوجائیں گے، پارلیمنٹ تاریخی آئنی قوت کے ساتھ موجود ہوگی اور مضبوط عدلیہ ہوگی اس لئے میں توقع ہے کہ بہترین جمہوری سیاست فروغ پائے گی‘۔
سابق صدر حسنی مبارک دور کےنیشنل ڈیموکرٹک پارٹی کے معروف رکن کہبتے ہیں کہ یہ مسلہ نہیں کہ خفیہ ادارے کے جنرل کی سربراہی میں سیسی کی حامی پارٹی پہلے مرحلے میں اول نمبر پر آئی ہے اگر وہ دوسرا مرحلہ بھی جیت لے تو وہ پارلیمنٹ میں نئی قانون سازی کے لئے 20 فیصد سے بھی کم ہوں گے۔