مصر کی حکومت نے شدت پسندوں کے حملوں میں 33 فوجیوں کی ہلاکت کے بعد ملک کے شمالی علاقے جزیرہ نما سینا میں ہنگامی حالت نافذ کردی ہے۔
ہفتے کو مصر کے سرکاری ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے صدر عبدالفتاح السیسی نے علاقے میں ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کیا۔
صدر السیسی کا کہنا تھا کہ مصر کی سکیورٹی فورسز علاقے میں دہشت گردوں کے خلاف "زندگی اور موت کی جنگ" میں مصروف ہیں۔
فوجی افسران کے جلو میں موجود صدر السیسی کا اپنے جذباتی خطاب میں کہنا تھا کہ مصر کوغیر ملکی دشمنوں کا سامنا ہے جو مصری سرزمین پر خوف اور دہشت پھیلانے کے لیے سرگرم ہیں۔
سینا کے علاقے میں جمعے کو ایک فوجی چوکی پر خود کش حملے اور ایک دوسری چوکی پر شدت پسندوں کی فائرنگ کے نتیجے میں 33 فوجی اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔
اپنے خطاب میں مصری صدر کا کہنا تھا کہ جمعے کو ہونے والے حملے میں ایک غیر ملکی تنظیم ملوث ہے اور ان حملوں کا مقصد مصری عوام اور فوج کے دہشت گردی کے خلاف عزم کو کمزور کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مصر اس وقت دہشت گردوں کے خلاف اپنی "بقا کی جنگ" لڑ رہا ہے جو طویل عرصے تک جاری رہے گی۔
سرکاری اعلان کے مطابق حکومت نے شمالی اور وسطی جزیرہ نما سینا میں تین ماہ کے لیے ہنگامی حالت نافذ کی ہے جب کہ فلسطینی علاقے غزہ جانے والا رفحہ کا سرحدی راستہ بھی تاحکمِ ثانی بند کردیا گیا ہے۔
اعلامیے کے مطابق 60 ہزار اسکوائر کلومیٹر کے علاقے کے تمام قصبوں اور دیہات میں شام پانچ سے صبح سات بجے تک کرفیو بھی نافذ رہے گا۔
مصر کے صدارتی محل سےجاری ہونے والے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ہنگامی حالت کے دوران فوج اور پولیس کو دہشت گردوں اور انہیں دستیاب وسائل کے خلاف کارروائیاں کرنے، خطے میں قیامِ امن اور مصری شہریوں کی زندگیوں کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھانے کا اختیار ہوگا۔
گزشتہ سال مصر کے اسلام پسند صدر محمد مرسی کے خلاف ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد سے صحرائے سینا میں مسلم شدت پسندوں کی کارروائیوں میں تیزی آگئی ہے جو اکثر و بیشتر سرکاری تنصیبات اور سکیورٹی اہلکاروں پر حملے کرتے ہیں۔
مصری حکام کے مطابق صدر مرسی کی حکومت کے خاتمے کےبعد سے اس علاقے میں شدت پسندوں کی کارروائیوں میں اب تک سیکڑوں پولیس اور فوجی اہلکار مارے جاچکے ہیں۔
سینا میں کیے جانے والے بیشتر حملوں کی ذمہ داری "انصار بیت المقدس" نامی ایک غیر معروف تنظیم قبول کرتی رہی ہے جس کا تعلق بعض مصری تجزیہ کار فلسطینی مزاحمتی تنظیم 'حماس' سے جوڑتے ہیں۔
تاہم 'حماس' کے رہنما ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے مصر میں جاری کسی بھی قسم کی دہشت گردی سے لاتعلقی ظاہر کرتے رہے ہیں۔