واشنگٹن —
مصر کے صدر محمد مرسی نے نئے آئین کی منظوری کے لیے ہفتے کو ہونے والے ریفرنڈم سے قبل ملک میں امن و امان کے قیام کے لیے فوج کو اضافی اختیارات سونپ دیے ہیں۔
پیر کو جاری کیے جانے والے ایک صدارتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ فوج ریاستی اداروں کو تحفظ دینے میں پولیس کی معاونت کرے۔ حکم نامے کے تحت فوجی اہلکار شہریوں کو گرفتار کرنے کی مجاز بھی ہوں گے۔
اس سے قبل اتوار کو مصری فوج نے دارالحکومت قاہرہ میں واقع صدارتی محل کے گرد رکاوٹیں کھڑی کردی تھیں تاکہ صدر مرسی کے مخالفین اور حامیوں کو محل کے سامنے مظاہرے کرنے سے روکا جاسکے ۔
قاہرہ کے صدارتی محل کے باہر گزشتہ کئی روز سے صدر مرسی کے مخالفین احتجاج کر رہے ہیں جس کے جواب میں ان کے حامیوں نے بھی وہاں مظاہرے کیے ہیں۔
حالیہ بحران کے آغاز کے بعد دارالحکومت میں صدر مرسی کی حمایت اور مخالفت میں ہونے والے مظاہروں کے شرکا کے مابین تصادم اور پرتشدد جھڑپوں میں اب تک سات افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
واضح رہے کہ 'لبرل' جماعتوں پر مشتمل مصری حزبِ اختلاف صدر مرسی کی جانب سے ملک کے نئے آئین پر ریفرنڈم کے انعقاد کو مسترد کرچکی ہے لیکن تاحال یہ واضح نہیں کہ آیا حزبِ مخالف کی جماعتیں ریفرنڈم کا بائیکاٹ کریں گی یا نہیں۔
اتوار کی شب جاری کیے جانے والے اپنے ایک بیان میں حزبِ اختلاف کے اتحاد 'نیشنل سالویشن فرنٹ' نے موقف اختیار کیا تھا کہ نئے آئین کا مسودہ مصری عوام کی امنگوں کی درست طور پہ ترجمانی نہیں کرتا۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ نئے آئینی مسودے کی ریفرنڈم کے ذریعے منظوری کی کوشش سے ملک میں مزید تصادم کی راہ ہموار ہوگی۔
یاد رہے کہ مجوزہ آئین تیار کرنے والی 100 رکنی اسمبلی میں صدر مرسی کی حامی جماعت 'اخوان المسلمون' اور اس کے اتحادی اسلام پسندوں کی اکثریت تھی جنہوں نے قبطی عیسائی نمائندوں اور لبرل اراکین کے واک آئوٹ کے بعد گزشتہ ماہ آئین کے مسودے کی منظوری دی تھی۔
حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے ریفرنڈم کے خلاف منگل کو ملک بھر میں مظاہروں کی کال دے رکھی ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ عوامی ریفرنڈم میں نئے آئین کی منظوری کا قوی امکان ہے کیوں کہ صدر مرسی کی جماعت 'اخوان المسلمون' اپنے حامیوں کو ووٹ ڈالنے کے لیے متحرک کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
سیکولر رجحان رکھنے والے کئی مصری باشندوں کو خدشہ ہے کہ نئے آئین کے ذریعے شہری آزادیوں کو سلب کیا جاسکتا ہے کیوں کہ اس میں اسلامی اصولوں اور قوانین کو بالادست قرار دیا گیا ہے جب کہ خواتین کے حقوق سے متعلق خاموشی اختیار کی گئی ہے۔
اس سے قبل ہفتے کو صدر مرسی نے ملک میں گزشتہ دو ہفتوں سے جاری سیاسی کشیدگی اور پرتشدد احتجاج کے بعد اپنے 22 نومبر کے اس حکم نامے کی بعض شقوں کو معطل کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے تحت انہوں نے بحیثیت صدرِ جمہوریہ اپنے احکامات کو عدالتی جائزے سے مستثنیٰ قرار دے دیا تھا۔
صدر نے یہ فیصلہ ایک روز قبل کئی سیاسی رہنمائوں کے ساتھ کیے جانے والے مذاکرات کے بعد کیا تھا تاہم حزبِ اختلاف کی بیشتر جماعتوں نے ان مذاکرات کا بائیکاٹ کیا۔
صدر مرسی نے واضح کیا تھا کہ اگر ہفتے کو ہونے والے ریفرنڈم میں نئے آئین کا مسودہ مسترد کردیا گیا تو وہ آئین تحریر کرنے والی نئی اسمبلی کے قیام کے لیے انتخابات کا اعلان کریں گے جس کے تیار کردہ مسودے کو دوبارہ ریفرنڈم کے ذریعے منظوری کے لیے عوام کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
ہفتے ہی کو مصر کی فوج نے ملک میں جاری پرتشدد مظاہروں اور حکومت اور حزبِ اختلاف کی چپقلش پر پہلی بار اپنے ردِ عمل کا بھی اظہار کیا تھا۔
فوج کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں فریقین پر زور دیا گیا تھا کہ وہ اپنے سیاسی اختلافات مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔ بیان میں کہا گیا تھا کہ تصادم کا جاری رہنا مصر کو ایک ایسی اندھی کھائی میں گراسکتا ہے جس کا انجام تباہی ہوگا اور یہ کہ فوج ایسے کسی انجام کی "اجازت نہیں دے گی"۔
پیر کو جاری کیے جانے والے ایک صدارتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ فوج ریاستی اداروں کو تحفظ دینے میں پولیس کی معاونت کرے۔ حکم نامے کے تحت فوجی اہلکار شہریوں کو گرفتار کرنے کی مجاز بھی ہوں گے۔
اس سے قبل اتوار کو مصری فوج نے دارالحکومت قاہرہ میں واقع صدارتی محل کے گرد رکاوٹیں کھڑی کردی تھیں تاکہ صدر مرسی کے مخالفین اور حامیوں کو محل کے سامنے مظاہرے کرنے سے روکا جاسکے ۔
قاہرہ کے صدارتی محل کے باہر گزشتہ کئی روز سے صدر مرسی کے مخالفین احتجاج کر رہے ہیں جس کے جواب میں ان کے حامیوں نے بھی وہاں مظاہرے کیے ہیں۔
حالیہ بحران کے آغاز کے بعد دارالحکومت میں صدر مرسی کی حمایت اور مخالفت میں ہونے والے مظاہروں کے شرکا کے مابین تصادم اور پرتشدد جھڑپوں میں اب تک سات افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
واضح رہے کہ 'لبرل' جماعتوں پر مشتمل مصری حزبِ اختلاف صدر مرسی کی جانب سے ملک کے نئے آئین پر ریفرنڈم کے انعقاد کو مسترد کرچکی ہے لیکن تاحال یہ واضح نہیں کہ آیا حزبِ مخالف کی جماعتیں ریفرنڈم کا بائیکاٹ کریں گی یا نہیں۔
اتوار کی شب جاری کیے جانے والے اپنے ایک بیان میں حزبِ اختلاف کے اتحاد 'نیشنل سالویشن فرنٹ' نے موقف اختیار کیا تھا کہ نئے آئین کا مسودہ مصری عوام کی امنگوں کی درست طور پہ ترجمانی نہیں کرتا۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ نئے آئینی مسودے کی ریفرنڈم کے ذریعے منظوری کی کوشش سے ملک میں مزید تصادم کی راہ ہموار ہوگی۔
یاد رہے کہ مجوزہ آئین تیار کرنے والی 100 رکنی اسمبلی میں صدر مرسی کی حامی جماعت 'اخوان المسلمون' اور اس کے اتحادی اسلام پسندوں کی اکثریت تھی جنہوں نے قبطی عیسائی نمائندوں اور لبرل اراکین کے واک آئوٹ کے بعد گزشتہ ماہ آئین کے مسودے کی منظوری دی تھی۔
حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے ریفرنڈم کے خلاف منگل کو ملک بھر میں مظاہروں کی کال دے رکھی ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ عوامی ریفرنڈم میں نئے آئین کی منظوری کا قوی امکان ہے کیوں کہ صدر مرسی کی جماعت 'اخوان المسلمون' اپنے حامیوں کو ووٹ ڈالنے کے لیے متحرک کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
سیکولر رجحان رکھنے والے کئی مصری باشندوں کو خدشہ ہے کہ نئے آئین کے ذریعے شہری آزادیوں کو سلب کیا جاسکتا ہے کیوں کہ اس میں اسلامی اصولوں اور قوانین کو بالادست قرار دیا گیا ہے جب کہ خواتین کے حقوق سے متعلق خاموشی اختیار کی گئی ہے۔
اس سے قبل ہفتے کو صدر مرسی نے ملک میں گزشتہ دو ہفتوں سے جاری سیاسی کشیدگی اور پرتشدد احتجاج کے بعد اپنے 22 نومبر کے اس حکم نامے کی بعض شقوں کو معطل کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے تحت انہوں نے بحیثیت صدرِ جمہوریہ اپنے احکامات کو عدالتی جائزے سے مستثنیٰ قرار دے دیا تھا۔
صدر نے یہ فیصلہ ایک روز قبل کئی سیاسی رہنمائوں کے ساتھ کیے جانے والے مذاکرات کے بعد کیا تھا تاہم حزبِ اختلاف کی بیشتر جماعتوں نے ان مذاکرات کا بائیکاٹ کیا۔
صدر مرسی نے واضح کیا تھا کہ اگر ہفتے کو ہونے والے ریفرنڈم میں نئے آئین کا مسودہ مسترد کردیا گیا تو وہ آئین تحریر کرنے والی نئی اسمبلی کے قیام کے لیے انتخابات کا اعلان کریں گے جس کے تیار کردہ مسودے کو دوبارہ ریفرنڈم کے ذریعے منظوری کے لیے عوام کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
ہفتے ہی کو مصر کی فوج نے ملک میں جاری پرتشدد مظاہروں اور حکومت اور حزبِ اختلاف کی چپقلش پر پہلی بار اپنے ردِ عمل کا بھی اظہار کیا تھا۔
فوج کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں فریقین پر زور دیا گیا تھا کہ وہ اپنے سیاسی اختلافات مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔ بیان میں کہا گیا تھا کہ تصادم کا جاری رہنا مصر کو ایک ایسی اندھی کھائی میں گراسکتا ہے جس کا انجام تباہی ہوگا اور یہ کہ فوج ایسے کسی انجام کی "اجازت نہیں دے گی"۔