انٹیلی جینس کے سابق اور موجودہ عہدے داربعض سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں کے اس خیال سے متفق نہیں کہ مصر کے ہنگاموں کے بارے میں پہلے سے کوئی اطلاع نہ ملنے سے، امریکی انٹیلی جینس کی ناکامی کی نشاندہی ہوتی ہے ۔ سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر مائیکل ہیڈن کہتے ہیں کہ انٹیلی جنس کمیونٹی نے پالیسی سازوں کو بار بار بتایا تھا کہ مصر میں صورتِ حال خراب ہو رہی ہے۔
انھوں نے کہا’’یہ بات بالکل واضح ہے کہ مصر کا موجودہ سیاسی ڈھانچہ قائم نہیں رہ سکتا تھا۔ وہاں بحران آنا نا گزیر تھا اور یہ بات ظاہر تھی کہ صدر مبارک کی عمر اور ان کی جانشینی کے سوال سے بحران آنے کی رفتار تیز ہو جائے گی۔ کسی پالیسی بنانے والے شخص کو ایسی صورت حال کا مقابلہ کرنے اور کسی منصوبے کی تیاری شروع کرنے کے لیئے آخر اور کیا معلوم ہونا ضروری ہے۔‘‘
ایمائل نکہلیہ نے جو سی آئی اے کے پولیٹیکل اسلام اسٹریٹیجک انیلیسز پروگرام کے ڈائریکٹر تھے، ہیڈن کو خود مصر کے بارے میں بریف کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں’’ہم نے اس بریفنگ میں کہا تھا کہ ایک بار معاشرے کے وہ گروہ جن کے پاس قوت ہے، یعنی سیکولر، اسلام پسند، لبرل اور قدامت پسند عناصر حکومت کے خلاف متحد ہو گئے، تو حکومت کے لیئے بڑی مشکل پیدا ہو جائے گی۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہم کسی مخصوص وقت اور مخصوص قوتوں کا تعین نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن ہم نے پالیسی سازوں کے سامنے یہ تمام حالات رکھ دیے تھے۔‘‘
پالیسی سازوں کو انٹیلی جینس ایجنسیوں کی کارکردگی سے شکایت اکثر اس وقت ہوتی ہے جب کسی پیشگی وارننگ کے بغیر کچھ واقعات ہو جائیں جیسے امریکہ پر 2001 میں دہشت گردوں کا حملہ جسے بڑے پیمانے پر امریکی انٹیلی جنس کی ناکامی کہا گیا ہے ۔ اب بعض سیاستداں کہہ رہے ہیں کہ یہ امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی ہے کہ وہ مصر کے بارے میں کوئی وارننگ نہ دے سکیں۔
قاہرہ سے واشنگٹن بھیجے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کے کچھ کیبلز سے جو ویب سائٹ وکی لیکس پر جاری کر دیے گئے ہیں، ظاہر ہوا ہے کہ امریکی سفارت خانوں کو معلوم تھا کہ مصر میں ایک طویل عرصے سے لاوا اندر ہی اندر پک رہا ہے ۔ ان کیبلز میں بتایا گیا تھا کہ مصریوں میں بے روزگاری اورمہنگائی کی زیادتی اور سیاسی آزادی کے فقدان پر سخت ناراضگی پائی جاتی ہے۔ قاہرہ میں امریکی سفارت خانے کے مارچ 2008 کے ایک کیبل میں مصر کے صدر حسنی مبارک اور ان کے وزیرِ دفاع محمد حسین تنتاوی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ دونوں بوڑھے ہو چکے ہیں، ہر قسم کی تبدیلی کے مخالف ہیں اور ان میں کوئی بھی چیز مختلف انداز سے کرنے کی توانائی یا رجحان موجود نہیں ہے۔
لیکن انٹیلی جنس کے ماہرین کہتے ہیں کہ سی آئی اے اور دوسری انٹیلی جنس ایجنسیاں مستقبل کی پیش گوئیاں نہیں کر سکتیں۔ مشرق وسطیٰ کے لیئے سی آئی اے کے سابق تجزیہ کار پال پِلر کہتے ہیں کہ پالیسی سازوں اور پبلک نے انٹیلی جینس ایجنسیوں کی پیش بینی کی قوتوں کے بارے میں بہت زیادہ توقعات وابستہ کر لی ہیں۔ سی آئی اے کے بالکل شروع کے دور سے، یعنی 1947 سے ہی یہ سلسلہ جاری ہے۔
’’پہلی بات تو یہ ہےکہ لوگوں کاخیال ہے کہ جب ہم بیرونی دنیا میں اتنا کچھ کر سکتے ہیں، تو ہمارے لیئے یہ ممکن ہونا چاہیئے کہ ہم یہ پتہ چلا سکیں کسی ایک بیرونی ملک میں کیا ہونے والا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مشکل اور اتفاقی واقعات کی وضاحت کرنا ہماری ضرورت ہے، خاص طور سے برے واقعات جیسے دہشت گردوں کے حملے۔ انسانی فطرت یہ ہے کہ ایسے واقعات کا الزام کسی پر لگایا جائے ، جیسے یہ کہا جائے کہ بیوروکریسی میں ضرور کسی سے چوک ہوئی ہوگی اور یہ کہ اگر ہم اس مسئلے کو حل کر لیں تو پھر ایسا واقعہ نہیں ہوگا۔‘‘
سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر ہیڈن کہتے ہیں کہ مصر میں بے چینی جیسے اچانک واقعات کی پیشگوئی کرنا، ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ۔’’مصر میں جو کچھ ہوا وہ کسی سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ نہیں تھا ۔ یہ سب کچھ بے ساختہ ہوا۔ یہ پیش گوئی تو کی جا سکتی تھی کہ تیونس کے واقعات کا اثر مصر پر پڑے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ یہ کوئی طویل المدت منصوبہ تھا جو کسی کے سیف میں محفوظ تھا جسے کسی ایجنٹ تک پہنچانا تھا یا کسی سگنل میں مداخلت کے ذریعے حاصل کیا جانا تھا۔‘‘
دسمبر میں تیونس میں ایک نوجوان نے خود کو آگ لگا کر اپنی جان دے دی۔ اس کے بعد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا جن کے نتیجے میں حکومت کا تختہ الٹ گیا۔ بہت سے تجزیہ کاروں کی نظر میں، یہ وہ آگ تھی جس کی چنگاری مصر میں اور دوسرے عرب ملکوں میں پھیل گئی ۔