مصر کے عبوری صدر عدلی منصور اصلاح پسند رہنما محمد البرادعی کی بطور عبوری وزیراعظم تعیناتی کےممکنہ فیصلے سے بظاہر پیچھے ہٹنے نظر آتے ہیں۔
عبوری صدر کے ایک ترجمان نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ اس تعیناتی کے بارے میں پہلے بھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا تھا اور اب بھی اس پر مشاورت جاری ہے۔
انھوں نے کسی اور امیدوار کا ذکر تو نہیں کیا لیکن ان کا کہنا تھا کہ عبوری وزیراعظم کی تعنیاتی کے لیے کوئی حتمی تاریخ طے نہیں تھی۔
ہفتہ کو حزب مخالف کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ البرادعی کو عبوری صدر نے طلب کیا ہے اور وہ کسی بھی وقت بطور عبوری وزیراعظم کا حلف اٹھا سکتے ہیں۔
قبل ازیں اخوان المسلمین کے ایک سینیئر ترجمان نے خبر رساں ادارے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا گروپ البرادعی کی تعیناتی کو مسترد کرتا ہے اور ان کے حامی برطرف کیے جانے والے صدر محمد مرسی کی بحالی تک اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔
مصر کے پہلے جمہوری منتخب صدر محمد مرسی کی حکومت کا ایک سال مکمل ہونے پر ان کے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں اعتدال پسندوں کے مظاہرے ہوئے تھے جن میں ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔
ان مظاہروں کے ردعمل میں مرسی کی جماعت اخوان المسلمین اور ان کے دیگر حامیوں نے بھی مرسی کے حق میں مظاہرے شروع کیے اور دیکھتے ہی دیکھتے حامیوں اور مخالفین کے یہ مظاہرے تشدد کی صورت اختیار کر گئے۔
مظاہروں اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں کم ازکم 30 افراد ہلاک اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔
گزشتہ بدھ کو فوج نے محمد مرسی کو معاملات افہام و تفہیم سے حل کرنے کے لیے دی جانے والی 48 گھنٹے کی مہلت ختم ہونے پر برطرف کر کے حراست میں لے لیا تھا۔
بعد ازاں اعلیٰ آئینی عدالت کے چیف جسٹس عدلی منصور نے بحیثیت عبوری صدر کے حلف اٹھا کر ملک میں صدارتی و پارلیمانی انتخابات کروانے کا عزم ظاہر کیا تھا۔
عبوری صدر کے ایک ترجمان نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ اس تعیناتی کے بارے میں پہلے بھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا تھا اور اب بھی اس پر مشاورت جاری ہے۔
انھوں نے کسی اور امیدوار کا ذکر تو نہیں کیا لیکن ان کا کہنا تھا کہ عبوری وزیراعظم کی تعنیاتی کے لیے کوئی حتمی تاریخ طے نہیں تھی۔
ہفتہ کو حزب مخالف کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ البرادعی کو عبوری صدر نے طلب کیا ہے اور وہ کسی بھی وقت بطور عبوری وزیراعظم کا حلف اٹھا سکتے ہیں۔
قبل ازیں اخوان المسلمین کے ایک سینیئر ترجمان نے خبر رساں ادارے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا گروپ البرادعی کی تعیناتی کو مسترد کرتا ہے اور ان کے حامی برطرف کیے جانے والے صدر محمد مرسی کی بحالی تک اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔
مصر کے پہلے جمہوری منتخب صدر محمد مرسی کی حکومت کا ایک سال مکمل ہونے پر ان کے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں اعتدال پسندوں کے مظاہرے ہوئے تھے جن میں ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔
ان مظاہروں کے ردعمل میں مرسی کی جماعت اخوان المسلمین اور ان کے دیگر حامیوں نے بھی مرسی کے حق میں مظاہرے شروع کیے اور دیکھتے ہی دیکھتے حامیوں اور مخالفین کے یہ مظاہرے تشدد کی صورت اختیار کر گئے۔
مظاہروں اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں کم ازکم 30 افراد ہلاک اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔
گزشتہ بدھ کو فوج نے محمد مرسی کو معاملات افہام و تفہیم سے حل کرنے کے لیے دی جانے والی 48 گھنٹے کی مہلت ختم ہونے پر برطرف کر کے حراست میں لے لیا تھا۔
بعد ازاں اعلیٰ آئینی عدالت کے چیف جسٹس عدلی منصور نے بحیثیت عبوری صدر کے حلف اٹھا کر ملک میں صدارتی و پارلیمانی انتخابات کروانے کا عزم ظاہر کیا تھا۔