مصر کے فوجی لیڈر، سوویت روس میں تربیت یافتہ وزیرِ دفاع، محمد حسین تنتاوی ہفتے کی صبح اپنی گاڑی میں تحریر اسکوائر پہنچے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں جمہوریت اور سویلین حکومت کا مطالبہ کرنے والے جمع ہوئے تھے۔
ہارورڈ یونیورسٹی میں مشرق وسطیٰ کے ماہر، پال بیرن کہتے ہیں کہ اقتدار کی تبدیلی کے بعد، اب تک تنتاوی کو خوشدلی سے قبول کیا گیا ہے، لیکن انہیں صورت حال سے بہت احتیاط سے نمٹنا ہوگا۔ بیرن کہتے ہیں کہ مصر میں نوجوان نسل جو تبدیلی لائی ہے، اس سے مصری فوج بھی مبرا نہیں ہے۔ تنتاوی کو جو بہت سے چیلنج درپیش ہیں ، ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔
’’تنتاوی کو مصریوں کی بہت بڑی اکثریت پسند کرتی ہے اور اس میں ملٹری بھی شامل ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ تنتاوی اس دِن کے لیے کوئی سازش تیار کررہے تھے، لیکن مجھے یقین ہے کہ کئی ہفتوں سے وہ اس کے بارے میں سوچ ضرور رہے تھے کہ اگلے اقدامات کیا ہوں گے۔‘‘
کولیشن آف دی یوتھ آف کی رولوشن نامی گروپ نے ایک پریس کانفرنس منعقد کی جس میں انھوں نے کہا کہ احتجاج کرنے والوں کو التحریر اسکوائر کو چھوڑ دینا چاہئیے اور اگلے جمعے کو ان لوگوں کو ہدیہ تبریک پیش کرنے کے لیے آنا چاہیئے جنھوں نے احتجاج کے دوران اپنی جانیں قربان کیں۔
بعض دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ انھیں اپنا مظاہرہ اس وقت تک جاری رکھنا چاہیئے جب تک کہ ایمرجنسی کا 30 سالہ قانون جس کے تحت کسی الزام کے بغیر کسی کو بھی حراست میں رکھنے کی اجازت ہے، واپس نہیں لیا جاتا۔
امریکہ میں قائم کونسل آن فارن ریلیشنز کے رابرٹ ڈینن کہتے ہیں کہ اس مطالبے کی وجہ سے فوج بڑی مشکل میں پڑ جائے گی۔
’’ستم ظریفی یہ ہے کہ سڑکوں پر جو کچھ ہو رہا ہے اس کی روشنی میں ایمرجینسی کا قانون پچھلے چند ہفتوں کے مقابلے میں اب زیادہ اہم معلوم ہوتا ہے لیکن یہ بات واضح ہے کہ پچھلی حکومت کی باقیات میں سے یہ ایسا قانون ہے جس سے شدید نفرت کی جاتی ہے، اور لوگ چاہتے ہیں کہ اسے ختم کر دیا جائے۔‘‘
اسلامی بنیاد پرستی کے موضوع پر امریکہ میں رہنے والے ایک ماہر، Ed حسین کہتے ہیں کہ اہم بات یہ ہے کہ اسلامی انتہا پسندوں نے کئی بار مسٹر مبارک کا تختہ الٹنے کی کوشش کی لیکن وہ ہر بار ناکام رہے، جب کہ موجودہ تحریک کو چلانے والے نوجوان تھے اور وہ تشدد سے دور رہے۔
’’جہادی عناصر نے جو مبارک کی حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے تھے، بار بار کوشش کی اور ہر ممکن حربہ استعمال کیا لیکن وہ ناکام رہے۔ جیسا کہ امریکی صدر براک اوباما نے بجا طور پر کہا کہ ہم نے دیکھا کہ عرب دنیا میں اس بار لوگوں نے گاندھی اور مارٹن لوتھر کنگ کا ماڈل استعمال کیا اور کامیاب رہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ باقی دنیا کی طرح عرب بھی آزادی ، انسانی حقوق اور جمہوریت چاہتے ہیں۔‘‘
اس سال کے دوران، مصر ی آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی امید کر رہے ہیں لیکن ڈینن کہتے ہیں کہ اس مرحلے پر یہ پیشگوئی کرنا مشکل ہے کہ انتخاب میں کسے سبقت حاصل ہو گی۔ وہ عمر سلیمان کا نام لیتے ہیں جنھیں احتجاج کے دوران نائب صدر نامزد کیا گیا تھا، اور عرب لیگ کے موجودہ مصری سربراہ امر موسیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔
’’میں سمجھتا ہوں کہ جن لوگوں کو ہم اچھی طرح جانتے ہیں، انہیں نظر انداز کر دیا جائے گا۔ جنرل تنتاوی ، عمر سلیمان، بلکہ کچھ حد تک امر موسیٰ بھی، کیوں کہ یہ سب پرانے نظام کے ساتھ منسلک سمجھے جاتے ہیں۔ اب نئے دور میں انھوں نے اپنا پیغام بدل لیا ہے لیکن اسے شاید مطلب پرستی ہی سمجھا جائے گا۔‘‘
حزبِ ِ اختلاف کی مشہور شخصیتوں میں ، لبرل El-Ghad پارٹی کے ایمن نور، اقوام متحدہ کی اٹامک انرجی ایجنسی کے سابق سربراہ محمد البرادئی جن کا ذکر اکثر غیر ملکی میڈیا میں ہوتا ہے، اور اخوان المسلمین کے نئے لیڈر، محمد Badi شامل ہیں۔
احتجاج کے ایک منتظم، گوگل انٹرنیٹ کے تیس سالہ ریجنل منیجر، Wael Ghonim نے زور دے کر کہا ہے کہ وہ کوئی لیڈر نہیں ہیں، اور انہیں سیاست میں آنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ نوجوان سیاسی لیڈروں کی ایک نئی کھیپ بہت تیزی سے ابھر کر سامنے آ سکتی ہے۔ یہ نوجوان سوشل میڈیا استعمال کریں گے ، بالکل اسی طرح جس طرح انھوں نے احتجاجی مظاہروں کی منصوبہ بندی میں کیا تھا۔ اس طرح وہ اپنے مقصد میں پیش رفت کر سکتے ہیں اور مستقبل میں انتخابات بھی جیت سکتے ہیں۔