صدربراک اوباما نےکہا ہے کہ پوری دنیا نےقاہرہ میں تاریخ رقم ہوتے ہوئے دیکھی ہے۔ اُن کے الفاظ میں ‘مصر کے عوام نےآواز بلند کی۔ اُن کی آواز سُنی گئی اور اب مصر ماضی کی طرف پھر کبھی نہیں پلٹے گا۔’
مسٹر اوباما نے کہا کہ ‘نئی نسل سامنے آگئی ہے اور اب جمہوری مصر مشرقِ وسطیٰ اور پوری دنیا میں ایک ذمہ دارانہ قیادت کی طرف پیش رفت کر سکتا ہے۔صدر مبارک نے اقتدار سے دست بردار ہوکر مصری عوام کی تبدیلی کی خواہش کو پورا کیا ہے۔ مگر یہ مصر میں تبدیلی کا نقطہٴ انجام نہیں بلکہ نقطہ آغاز ہے۔’
صدر نے اِس بات کا اعتراف کیا کہ مصر میں آنے والے دِن کٹھن ہوں گے، مگر جب بھی ضرورت پڑی امریکہ اُن کی مدد کرے گا۔
مسٹر اوباما نے مصر کی نئی فوجی قیادت سے کہاہے کہ وہ بااعتبار تبدیلی کو یقنی بنائیں جِن میں آفاقی حقوق کی ضمانت ہو، ملک سے ہنگامی قوانین اُٹھائے جائیں اور آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کر لیے راہ ہموار ہو۔
صدر اوباما نے مصری افواج کی اِس اعتبار سے تعریف کی کہ اُس میں ہزاروں مظاہرین کو تشدد سے باز رکھا۔
صدر اوباما کی تقریر سے قبل مصر کے اصلاح پسند لیڈر محمد البرداعی نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ صدر اوباما سے یہ سننا چاہتے ہیں کہ امریکہ کسی بھی حالت میں مصر کے آمرانہ نظام کی حمایت نہیں کرے گا۔
قبل ازیں، جمعے کے روز امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے کہا کہ مسٹر مبارک کو اقتدار سے ہٹانا ا ُس عمل کا ایک حصہ ہے جو مصر کے علاوہ دوسرے حصوں میں پھیل چکا ہے۔ ‘یہ سب کچھ تیونس میں ایک پھل فروش کے واقعے سے شروع ہوا جس نے بدعنوان حکومت اور خراب معاشی حالات کے سبب خود کو آگ لگا کر بھسم کردیا اور ایسا کرکے اُس نے لاکھوں کروڑوں عوام کے جذبات کو بھڑکا دیا۔’
نائب صدر جو بائیڈن کے علاوہ، ایوانِ نمائندگان میں اقلیتی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کی لیڈر نینسی پلوسی اور امورِ خارجہ کمیٹی کی چیئرپرسن اِلیانہ روس لینٹنن نے بھی مصر میں رونما ہونے والے واقعات کا خیر مقدم کیا ہے۔