مصر میں طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے والے حسنی مبارک کی حکومت کے خلاف شروع ہونے والے عوامی مظاہروں کے ہفتہ کو تین سال مکمل ہونے پر قاہرہ اور دیگر شہروں میں مظاہرے ہوئے۔
2011ء میں مصر سمیت مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں ’عرب اسپرنگ‘ کے نام سے مظاہرے شروع ہوئے۔ عرب دنیا کے بڑے ملک مصر میں حکومت کا تختہ اُلٹنے کے لیے مظاہروں کا مقصد ملک میں استحکام کے لیے جمہوریت کا فروغ تھا۔
لیکن اس کی بجائے ملک سیاسی بحران کا شکار ہو گیا کیوں کہ پہلے منتخب صدر محمد مرسی کی حکومت کے خلاف بھی بڑے پیمانے پر مظاہروں کے بعد فوج کی حمایت سے اُنھیں عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔
تین سال قبل قاہرہ کے التحریر اسکوائر میں زبردست مظاہروں اور ملک میں حکومت مخالف عوامی تحریک کے دباؤ کے باعث حسنی مبارک کو اقتدار چھوڑنا پڑا اور پھر انتخابات کے بعد محمد مرسی ملک کے صدر بنے۔
لیکن گزشتہ سال ملک میں محمد مرسی کے خلاف مظاہروں کے بعد اُنھیں بھی برطرف کر دیا گیا اور اُن کے خلاف مقدمات زیر سماعت ہیں۔
اُدھر مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں جمعہ کو ہونے والے چار بم دھماکوں کی ذمہ داری القاعدہ سے منسلک ایک شدت پسند گروپ نے قبول کر لی ہے۔ ان بم دھماکوں میں چھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
انصار بیت المقدس یا یروشلیم کے جانثار نامی اس گروپ نے ہفتہ کو ایک بیان میں ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ بیان میں لوگوں سے کہا گیا کہ وہ پولیس اسٹیشنز سے دور رہیں۔
اس گروپ نے ستمبر 2013 میں منصورہ اور دیگر علاقوں میں بم حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ حملے فوج کی حمایت یافتہ حکومت کی طرف سے اسلامی جماعت کے کارکنوں کے خلاف کارروائیوں کے ردعمل میں کیے گئے۔
جمعہ کو مصر میں کم از کم 20 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ بم دھماکوں کے علاوہ دیگر افراد کی ہلاکتیں سخت گیر خیالات رکھنے والے مظاہرین اور اُن کے آزاد خیال مخالفین و پولیس کے درمیان جھڑپوں میں ہوئی۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے جمعہ کو قاہرہ میں ہونے والے بم دھماکوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے حملوں کا کوئی جواز نہیں۔
امریکہ نے بھی تشدد کی مذمت کرتے ہوئے تحمل کا مظاہرہ کرنے پر زور دیا ہے۔
2011ء میں مصر سمیت مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں ’عرب اسپرنگ‘ کے نام سے مظاہرے شروع ہوئے۔ عرب دنیا کے بڑے ملک مصر میں حکومت کا تختہ اُلٹنے کے لیے مظاہروں کا مقصد ملک میں استحکام کے لیے جمہوریت کا فروغ تھا۔
لیکن اس کی بجائے ملک سیاسی بحران کا شکار ہو گیا کیوں کہ پہلے منتخب صدر محمد مرسی کی حکومت کے خلاف بھی بڑے پیمانے پر مظاہروں کے بعد فوج کی حمایت سے اُنھیں عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔
تین سال قبل قاہرہ کے التحریر اسکوائر میں زبردست مظاہروں اور ملک میں حکومت مخالف عوامی تحریک کے دباؤ کے باعث حسنی مبارک کو اقتدار چھوڑنا پڑا اور پھر انتخابات کے بعد محمد مرسی ملک کے صدر بنے۔
لیکن گزشتہ سال ملک میں محمد مرسی کے خلاف مظاہروں کے بعد اُنھیں بھی برطرف کر دیا گیا اور اُن کے خلاف مقدمات زیر سماعت ہیں۔
اُدھر مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں جمعہ کو ہونے والے چار بم دھماکوں کی ذمہ داری القاعدہ سے منسلک ایک شدت پسند گروپ نے قبول کر لی ہے۔ ان بم دھماکوں میں چھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
انصار بیت المقدس یا یروشلیم کے جانثار نامی اس گروپ نے ہفتہ کو ایک بیان میں ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ بیان میں لوگوں سے کہا گیا کہ وہ پولیس اسٹیشنز سے دور رہیں۔
اس گروپ نے ستمبر 2013 میں منصورہ اور دیگر علاقوں میں بم حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ حملے فوج کی حمایت یافتہ حکومت کی طرف سے اسلامی جماعت کے کارکنوں کے خلاف کارروائیوں کے ردعمل میں کیے گئے۔
جمعہ کو مصر میں کم از کم 20 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ بم دھماکوں کے علاوہ دیگر افراد کی ہلاکتیں سخت گیر خیالات رکھنے والے مظاہرین اور اُن کے آزاد خیال مخالفین و پولیس کے درمیان جھڑپوں میں ہوئی۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے جمعہ کو قاہرہ میں ہونے والے بم دھماکوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے حملوں کا کوئی جواز نہیں۔
امریکہ نے بھی تشدد کی مذمت کرتے ہوئے تحمل کا مظاہرہ کرنے پر زور دیا ہے۔