واشنگٹن —
مصر کے عوام نے منگل کے روز، فوج کی حمایت سےچلنے والی عبوری حکومت کی طرف سے نئے آئین پر کرائے جانے والے ریفرنڈم میں حصہ لینے کے لیے قطاریں لگائیں۔
ایسے میں جب دو روز تک جاری رہنے والی یہ ووٹنگ شروع ہوئی، ملک بھر میں لاکھوں کی تعداد میں پولیس کا عملہ اور فوجی تعینات کیے گئے تھے۔ تاہم، اِس کے باوجود، معزول صدر، محمد مرصی کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان تشدد پر مبنی کارروائیوں کو نہیں روکا جاسکا، جِن واقعات میں کم از کم آٹھ افراد ہلاک ہوئے۔
اگر اِسے منظور کیا جاتا ہے، تو یہ نیا آئین، اُس اسلام نواز دستور کی جگہ لے گا، جسے مرصی کی صدارت کے دوران 2012ء میں منظور کیا گیا تھا۔ اُس وقت ہونے والے ریفرینڈم میں تقریباً 30 فی صد ووٹروں نے حصہ لیا تھا۔
اسلام نواز، اخوان المسلمون تحریک نے مصر کے عوام پر زور دیا تھا کہ وہ اِس ہفتے ہونے والے ریفرینڈم میں شرکت نہ کریں، جسے اخوان نے ناجائز قرار دیا ہے۔
نئےمسودہٴ آئین میں، پرانی دستاویز میں موجود اسلامی زبان کو ہٹایا گیا ہے، اور خواتین کو زیادہ حقوق دینے کی سفارش کی گئی ہے، جب کہ فوج کے اختیارات میں اضافہ ہوگا۔
مخالفین کی طرف سے اقتدار پر تسلط جمانے کے حربے استعمال کرنے کے الزامات لگائے جانے کے بعد، مصر کی فوج نے مسٹر مرصی کو معزول کر دیا تھا۔
حکام نے اخوان المسلمون کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہوئے، اِسے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے، اور اُس کے راہنماؤں کو گرفتار کیا گیا ہے۔
ایسے میں جب احتجاجی مظاہرے جاری ہیں، اب تک 1000 سے زائد افراد، جِن میں زیادہ تر مرصی کے حامی شامل ہیں، ہلاک ہو چکے ہیں۔
’وائس آف امریکہ‘ کی نامہ نگار، الزبیتھ اَروٹ نے قاہرہ سے خبر دی ہے کہ آئین کی منظوری کی صورت میں، درحقیقت یہ ریفرنڈم اُس شخص کے حق میں مہر ثبت کرے گا، جو ممکنہ طور پر آنے والے صدارتی انتخابات میں ایک امیدوار ہوں گے، جو فوج کے سربراہ، جنرل عبد الفاتح السیسی ہیں، جنھوں نے جولائی میں صدر مرصی کو معزول کیا تھا۔
ایسے میں جب دو روز تک جاری رہنے والی یہ ووٹنگ شروع ہوئی، ملک بھر میں لاکھوں کی تعداد میں پولیس کا عملہ اور فوجی تعینات کیے گئے تھے۔ تاہم، اِس کے باوجود، معزول صدر، محمد مرصی کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان تشدد پر مبنی کارروائیوں کو نہیں روکا جاسکا، جِن واقعات میں کم از کم آٹھ افراد ہلاک ہوئے۔
اگر اِسے منظور کیا جاتا ہے، تو یہ نیا آئین، اُس اسلام نواز دستور کی جگہ لے گا، جسے مرصی کی صدارت کے دوران 2012ء میں منظور کیا گیا تھا۔ اُس وقت ہونے والے ریفرینڈم میں تقریباً 30 فی صد ووٹروں نے حصہ لیا تھا۔
اسلام نواز، اخوان المسلمون تحریک نے مصر کے عوام پر زور دیا تھا کہ وہ اِس ہفتے ہونے والے ریفرینڈم میں شرکت نہ کریں، جسے اخوان نے ناجائز قرار دیا ہے۔
نئےمسودہٴ آئین میں، پرانی دستاویز میں موجود اسلامی زبان کو ہٹایا گیا ہے، اور خواتین کو زیادہ حقوق دینے کی سفارش کی گئی ہے، جب کہ فوج کے اختیارات میں اضافہ ہوگا۔
مخالفین کی طرف سے اقتدار پر تسلط جمانے کے حربے استعمال کرنے کے الزامات لگائے جانے کے بعد، مصر کی فوج نے مسٹر مرصی کو معزول کر دیا تھا۔
حکام نے اخوان المسلمون کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہوئے، اِسے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے، اور اُس کے راہنماؤں کو گرفتار کیا گیا ہے۔
ایسے میں جب احتجاجی مظاہرے جاری ہیں، اب تک 1000 سے زائد افراد، جِن میں زیادہ تر مرصی کے حامی شامل ہیں، ہلاک ہو چکے ہیں۔
’وائس آف امریکہ‘ کی نامہ نگار، الزبیتھ اَروٹ نے قاہرہ سے خبر دی ہے کہ آئین کی منظوری کی صورت میں، درحقیقت یہ ریفرنڈم اُس شخص کے حق میں مہر ثبت کرے گا، جو ممکنہ طور پر آنے والے صدارتی انتخابات میں ایک امیدوار ہوں گے، جو فوج کے سربراہ، جنرل عبد الفاتح السیسی ہیں، جنھوں نے جولائی میں صدر مرصی کو معزول کیا تھا۔