واشنگٹن —
مصر کےطبی امداد سے وابستہ کارکنوں نے بتایا ہے کہ ملک کے شمالی علاقےبندر سعید میں آج دوسرے روز بھی شدید فسادات بھڑک اُٹھے، جِن کے نتیجے میں تین افراد ہلاک اور کم از کم400 زخمی ہوئے۔
اتوار کے روز ہونے والی شورش اُس وقت شروع ہوئی جب بندر سعید کےہزاروں رہائشیوں نے ایک روز قبل حکومت مخالف مظاہرین اور پولیس کےدرمیان گلیوں میں ہونے والی جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے 33 افراد کی اجتماعی تدفین میں شرکت کی۔
ایسے میں جب میتوں کو قبرستان لے جایا جا رہا تھا، جلوس میں شامل چند لوگوں نے راستے میں ایک مقام پر گولیاں چلادیں، جس کے باعث خوف و ہراس پھیل گیا اور پولیس نے آنسو گیس کے گولے پھینکے۔
طبی کارکنوں کےمطابق، اتوار کےدِن ہلاک ہونے والوں میں ایک 18برس کی خاتون شامل ہیں، جنھیں چھاتی میں گولی لگی۔
ماتمی جلوس میں شریک متعدد لوگوں نے مصر کے اسلام پسند صدر محمد مرسی کے خلاف نعرے بازی کی اور ہفتے کے روز ہونے والے ہنگاموں میں ہلاک ہونے والوں کا بدلہ لینے کا مطالبہ کیا۔
یہ فسادات اُس وقت شروع ہوئے جب بندر سعید کے رہائشیوں نے قاہرہ کی عدالت کے فیصلے پر برہمی کا اظہار کیا، جِس میں 21افراد کو پھانسی کی سزا دی گئی تھی، جن میں زیادہ تر بندر سعید فٹبال ٹیم ’المصری‘ کے شائقین شامل تھے۔ ملزمین کو پہلی فروری 2012ء میں بندر سعید میں فٹبال میچ میں بھڑک اُٹھنے والے ہنگامے کے دوران 74افراد کی موت پر سزا سنائی گئی تھی۔
اسٹیڈیم میں ہلاک ہونے والے لوگوں کی زیادہ ترتعداد کا تعلق قاہرہ میں مہمان ٹیم الاہلی کےحامیوں سے تھا۔
ہفتے کے ہنگامے کے دوران بندر سعید کے مظاہرین نے متعدد پولیس اسٹیشنوں پر دھاوا بول دیا اور ایک جیل کے دروازے کھولنے کی کوشش کی، جِس میں وہ 21 مجرم قید ہیں جنھیں پھانسی کی سزا ہوئی ہے۔ بعدازاں، مصر کی فوج نے حکومتی عمارات کے تحفظ اور حالات کو قابو میں رکھنے کے لیےشہر میں فوجیں تعینات کردیں۔
فٹبال میچ کے دوران ہونے والے ہنگامے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین اور قاہرہ کے شائقین نے عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔
اُنھوں نے بندر سعید کے حامیوں کو سزا نہ ہونے کی صورت میں ہنگاموں کی دھمکی دے رکھی تھی۔ عدالت نو مارچ کو باقی 52ملزمان کے خلاف مقدمے کا فیصلہ دینے والی ہے۔ ابھی مصر کےاعلیٰ مذہبی ادارے، اعلیٰ مفتی نے ہفتے کو دی جانے والی پھانسی کی سزاؤں کی توثیق کرنی ہے۔
آج اتوار کو لگاتار چوتھےروز بھی قاہرہ کےتحریر چوک پر حکومت مخالف فسادات جاری رہے۔
مظاہرین نے پولیس پر پتھر بازی کی، جس نے آنسو گیس کے گولے پھینکے۔
مظاہرین مسٹر مرسی اور اُن کی اخوان المسلمین تحریک کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ اُن کا الزام ہے کہ وہ اقتدار پر قابض ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس طرح وہ 2011ء کے جمہوریت نواز انقلاب سے بے وفائی کے مرتکب ہوئے ہیں، جس میں طویل عرصے سے اقتدار میں رہنے والے صدر حسنی مبارک کا تختہ الٹا گیا تھا۔
اتوار کے روز ہونے والی شورش اُس وقت شروع ہوئی جب بندر سعید کےہزاروں رہائشیوں نے ایک روز قبل حکومت مخالف مظاہرین اور پولیس کےدرمیان گلیوں میں ہونے والی جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے 33 افراد کی اجتماعی تدفین میں شرکت کی۔
ایسے میں جب میتوں کو قبرستان لے جایا جا رہا تھا، جلوس میں شامل چند لوگوں نے راستے میں ایک مقام پر گولیاں چلادیں، جس کے باعث خوف و ہراس پھیل گیا اور پولیس نے آنسو گیس کے گولے پھینکے۔
طبی کارکنوں کےمطابق، اتوار کےدِن ہلاک ہونے والوں میں ایک 18برس کی خاتون شامل ہیں، جنھیں چھاتی میں گولی لگی۔
ماتمی جلوس میں شریک متعدد لوگوں نے مصر کے اسلام پسند صدر محمد مرسی کے خلاف نعرے بازی کی اور ہفتے کے روز ہونے والے ہنگاموں میں ہلاک ہونے والوں کا بدلہ لینے کا مطالبہ کیا۔
یہ فسادات اُس وقت شروع ہوئے جب بندر سعید کے رہائشیوں نے قاہرہ کی عدالت کے فیصلے پر برہمی کا اظہار کیا، جِس میں 21افراد کو پھانسی کی سزا دی گئی تھی، جن میں زیادہ تر بندر سعید فٹبال ٹیم ’المصری‘ کے شائقین شامل تھے۔ ملزمین کو پہلی فروری 2012ء میں بندر سعید میں فٹبال میچ میں بھڑک اُٹھنے والے ہنگامے کے دوران 74افراد کی موت پر سزا سنائی گئی تھی۔
اسٹیڈیم میں ہلاک ہونے والے لوگوں کی زیادہ ترتعداد کا تعلق قاہرہ میں مہمان ٹیم الاہلی کےحامیوں سے تھا۔
ہفتے کے ہنگامے کے دوران بندر سعید کے مظاہرین نے متعدد پولیس اسٹیشنوں پر دھاوا بول دیا اور ایک جیل کے دروازے کھولنے کی کوشش کی، جِس میں وہ 21 مجرم قید ہیں جنھیں پھانسی کی سزا ہوئی ہے۔ بعدازاں، مصر کی فوج نے حکومتی عمارات کے تحفظ اور حالات کو قابو میں رکھنے کے لیےشہر میں فوجیں تعینات کردیں۔
فٹبال میچ کے دوران ہونے والے ہنگامے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین اور قاہرہ کے شائقین نے عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔
اُنھوں نے بندر سعید کے حامیوں کو سزا نہ ہونے کی صورت میں ہنگاموں کی دھمکی دے رکھی تھی۔ عدالت نو مارچ کو باقی 52ملزمان کے خلاف مقدمے کا فیصلہ دینے والی ہے۔ ابھی مصر کےاعلیٰ مذہبی ادارے، اعلیٰ مفتی نے ہفتے کو دی جانے والی پھانسی کی سزاؤں کی توثیق کرنی ہے۔
آج اتوار کو لگاتار چوتھےروز بھی قاہرہ کےتحریر چوک پر حکومت مخالف فسادات جاری رہے۔
مظاہرین نے پولیس پر پتھر بازی کی، جس نے آنسو گیس کے گولے پھینکے۔
مظاہرین مسٹر مرسی اور اُن کی اخوان المسلمین تحریک کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ اُن کا الزام ہے کہ وہ اقتدار پر قابض ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس طرح وہ 2011ء کے جمہوریت نواز انقلاب سے بے وفائی کے مرتکب ہوئے ہیں، جس میں طویل عرصے سے اقتدار میں رہنے والے صدر حسنی مبارک کا تختہ الٹا گیا تھا۔