مصر میں عوامی تحریک کو دو برس مکمل ہو چکے ہیں اور دانشوروں سے لے کر عام لوگوں تک ، سب یہ سوچ رہے ہیں کہ انھوں نے اس عرصے میں کیا کھویا اور کیا پایا ہے اور ابھی کیا کچھ کرنا باقی ہے ۔
عام مصریوں کے لیے انقلاب کے بعد کے دو برس خوشی کا پیغام لائے اور آزمائشوں کا بھی ۔ غزا کے شہری احاب گوہر کی طرح بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ سب سے بڑی چیز یہ احساس ہے کہ اب طاقت عوام کے پاس ہے ۔ ’’انقلاب سے پہلے ہمیں کوئی آزادی نہیں تھی ۔ اب ہم کھلے عام اپنے صدر سے کہہ سکتے ہیں کہ مصر کے لوگ کیا چاہتے ہیں۔‘‘
ناول نگار ایلا السوانے کے لیے یہ بڑی حیرتناک تبدیلی ہے ۔ تحریک کے دوران وہ ان لاکھوں لوگوں میں شامل ہو گئے تھے جو مصر کی سڑکوں پر امڈ آئے تھے۔
’’انقلاب میں جو اہم ترین چیز ہوئی ہے، وہ انسانوں میں آنے والی تبدیلی ہے۔ لوگوں کے دل سے ڈر نکل گیا ہے۔ اور بے خوفی کا یہ احساس مستقل ہے۔ اب لوگ پھر کبھی خوفزدہ نہیں ہوں گے۔‘‘
لیکن کچھ لوگوں کو ڈر ہے کہ انقلاب کی روح خطرے میں ہے ۔ ان کے خیال میں گذشتہ سال اسلام پسند صدر محمد مرسی کا انتخاب اور نئے متنازع آئین کی منظوری ملک کے لیے نیک فال نہیں ہے اور اس سے ملک میں اختلافات پیدا ہوں گے۔
دریائے نیل پر چلنے والی ایک کشتی کے کیپٹن مصطفیٰ صیام اخوان المسلمین کے بارے میں محتاط ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس گروپ کو صرف اپنی فکر رہتی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ جو لوگ بر سرِ اقتدار ہیں ، انہیں یہ بات سمجھنی چاہیئے کہ ا ن پر پورے ملک کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔
اخوان کے ایک ناقد العسوانے کہتے ہیں کہ حکومت نے بنیادی ڈھانچے کی تعمیرِ نو اور روزگار کی فراہمی کے جو وعدے کیے تھے، وہ انہیں پورا نہیں کر سکی ہے۔ اب جب کہ وہ لوگ اقتدار میں ہیں جنہیں ایک طویل عرصے تک اقتدار سے محروم رکھا گیا تھا، ان پر اپنے وعدے پورے کرنے کی ذمے داری عائد ہوتی ہے ۔
’’میرے خیال میں یہ چیز انقلاب کے لیے بہت مفید ہے۔ یہ صورتِ حال اخوان کے لیے اچھی نہیں ہے کیوں کہ وہ اب ناکام ہو رہے ہیں اور ہر روز ان کی مقبولیت میں کمی آ رہی ہے ۔‘‘
العسوانے مزید کہتے ہیں کہ ان کا خیال تھا کہ لوگوں کو اخوان المسلمین سے مایوس ہونے میں 10 برس لگیں گے۔ لیکن اب دس مہینے بعد ہی لوگوں نے ان سے منہ موڑنا شروع کر دیا ہے۔
تا ہم بہت سے لوگ صدر مرسی کے بارے میں زیادہ تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مرسی اکثر اپنی تقریروں میں انقلاب کے جذبے کی بات کرتے ہیں ۔ اشرف الحسینی ایک بیکری کے مالک ہیں اور خراب اقتصادی حالات سے پریشان ہیں۔ لیکن صدر کے بارے میں ان کا رویہ ہمدردانہ ہے ۔
اخوان المسلمین کی حکومت کو بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اور وہ ان پر قابو پانے کے لیے سخت کوشش کر رہی ہے ۔
اخوان المسلمین اب بھی مصر کا سب سے زیادہ منظم سیاسی گروپ ہے۔ وہ بڑی تیزی سے اپنے لاکھوں پیروکاروں کو حکومت کی حمایت میں مظاہروں کے لیے میدان میں لا سکتا ہے۔
حزبِ اختلاف جس کے بہت سے ارکان نے دو برس قبل تحریر اسکوائر میں دھرنا دیا تھا، اب تک کوئی مضبوط سیاسی طاقت نہیں بن سکی ہے ۔ ناول نگار العسوانے اتحاد کے فقدان کا دفاع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس گروپ کے لوگ دوسروں کے آمرانہ خیالات کو مسترد کرتے ہیں اور آزادیٔ فکر کے قائل ہیں۔
لیکن وہ محسوس کرتے ہیں کہ وقت ان کے ساتھ ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ فرانس اور امریکہ میں بھی جب انقلاب آئے تو انہیں بہت سے مراحل سے گذرنا پڑا تھا ۔
’’اگر ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ انقلاب کے بعد چند برسوں میں ہی حقیقی تبدیلی آجائے گی، تو اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ہم نے انقلابات کی تاریخ کے بارے میں ہمارا مطالعہ محدود ہے۔‘‘
اور کشتی کے کیپٹن کی طرح العسوانے بھی جانتے ہیں کہ اہم ترین بات یہ ہے کہ آپ کی سمت صحیح ہونی چاہیئے۔ ان کا خیال ہے کہ مصر صحیح سمت میں جا رہا ہے ۔
عام مصریوں کے لیے انقلاب کے بعد کے دو برس خوشی کا پیغام لائے اور آزمائشوں کا بھی ۔ غزا کے شہری احاب گوہر کی طرح بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ سب سے بڑی چیز یہ احساس ہے کہ اب طاقت عوام کے پاس ہے ۔ ’’انقلاب سے پہلے ہمیں کوئی آزادی نہیں تھی ۔ اب ہم کھلے عام اپنے صدر سے کہہ سکتے ہیں کہ مصر کے لوگ کیا چاہتے ہیں۔‘‘
ناول نگار ایلا السوانے کے لیے یہ بڑی حیرتناک تبدیلی ہے ۔ تحریک کے دوران وہ ان لاکھوں لوگوں میں شامل ہو گئے تھے جو مصر کی سڑکوں پر امڈ آئے تھے۔
’’انقلاب میں جو اہم ترین چیز ہوئی ہے، وہ انسانوں میں آنے والی تبدیلی ہے۔ لوگوں کے دل سے ڈر نکل گیا ہے۔ اور بے خوفی کا یہ احساس مستقل ہے۔ اب لوگ پھر کبھی خوفزدہ نہیں ہوں گے۔‘‘
لیکن کچھ لوگوں کو ڈر ہے کہ انقلاب کی روح خطرے میں ہے ۔ ان کے خیال میں گذشتہ سال اسلام پسند صدر محمد مرسی کا انتخاب اور نئے متنازع آئین کی منظوری ملک کے لیے نیک فال نہیں ہے اور اس سے ملک میں اختلافات پیدا ہوں گے۔
دریائے نیل پر چلنے والی ایک کشتی کے کیپٹن مصطفیٰ صیام اخوان المسلمین کے بارے میں محتاط ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس گروپ کو صرف اپنی فکر رہتی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ جو لوگ بر سرِ اقتدار ہیں ، انہیں یہ بات سمجھنی چاہیئے کہ ا ن پر پورے ملک کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔
اخوان کے ایک ناقد العسوانے کہتے ہیں کہ حکومت نے بنیادی ڈھانچے کی تعمیرِ نو اور روزگار کی فراہمی کے جو وعدے کیے تھے، وہ انہیں پورا نہیں کر سکی ہے۔ اب جب کہ وہ لوگ اقتدار میں ہیں جنہیں ایک طویل عرصے تک اقتدار سے محروم رکھا گیا تھا، ان پر اپنے وعدے پورے کرنے کی ذمے داری عائد ہوتی ہے ۔
’’میرے خیال میں یہ چیز انقلاب کے لیے بہت مفید ہے۔ یہ صورتِ حال اخوان کے لیے اچھی نہیں ہے کیوں کہ وہ اب ناکام ہو رہے ہیں اور ہر روز ان کی مقبولیت میں کمی آ رہی ہے ۔‘‘
العسوانے مزید کہتے ہیں کہ ان کا خیال تھا کہ لوگوں کو اخوان المسلمین سے مایوس ہونے میں 10 برس لگیں گے۔ لیکن اب دس مہینے بعد ہی لوگوں نے ان سے منہ موڑنا شروع کر دیا ہے۔
تا ہم بہت سے لوگ صدر مرسی کے بارے میں زیادہ تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مرسی اکثر اپنی تقریروں میں انقلاب کے جذبے کی بات کرتے ہیں ۔ اشرف الحسینی ایک بیکری کے مالک ہیں اور خراب اقتصادی حالات سے پریشان ہیں۔ لیکن صدر کے بارے میں ان کا رویہ ہمدردانہ ہے ۔
اخوان المسلمین کی حکومت کو بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اور وہ ان پر قابو پانے کے لیے سخت کوشش کر رہی ہے ۔
اخوان المسلمین اب بھی مصر کا سب سے زیادہ منظم سیاسی گروپ ہے۔ وہ بڑی تیزی سے اپنے لاکھوں پیروکاروں کو حکومت کی حمایت میں مظاہروں کے لیے میدان میں لا سکتا ہے۔
حزبِ اختلاف جس کے بہت سے ارکان نے دو برس قبل تحریر اسکوائر میں دھرنا دیا تھا، اب تک کوئی مضبوط سیاسی طاقت نہیں بن سکی ہے ۔ ناول نگار العسوانے اتحاد کے فقدان کا دفاع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس گروپ کے لوگ دوسروں کے آمرانہ خیالات کو مسترد کرتے ہیں اور آزادیٔ فکر کے قائل ہیں۔
لیکن وہ محسوس کرتے ہیں کہ وقت ان کے ساتھ ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ فرانس اور امریکہ میں بھی جب انقلاب آئے تو انہیں بہت سے مراحل سے گذرنا پڑا تھا ۔
’’اگر ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ انقلاب کے بعد چند برسوں میں ہی حقیقی تبدیلی آجائے گی، تو اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ہم نے انقلابات کی تاریخ کے بارے میں ہمارا مطالعہ محدود ہے۔‘‘
اور کشتی کے کیپٹن کی طرح العسوانے بھی جانتے ہیں کہ اہم ترین بات یہ ہے کہ آپ کی سمت صحیح ہونی چاہیئے۔ ان کا خیال ہے کہ مصر صحیح سمت میں جا رہا ہے ۔