مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے کہا ہے کہ غزہ میں تشدد کے خاتمے کے لیے مصر کی جانب سے تجویز کردہ منصوبہ اب بھی قابلِ عمل ہے اور ان کا ملک فریقین کو لڑائی روکنے پر آمادہ کرنے کے لیے کردار اداکرنے پر تیار ہے۔
ہفتے کو دارالحکومت قاہرہ میں اٹلی کے وزیرِ اعظم میٹیو رینزی سے ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مصری صدر نے کہا کہ وہ اسرائیل اور 'حماس' کے درمیان تصادم کے فوری خاتمے کے خواہش مند ہیں۔
صدر السیسی کا کہنا تھا کہ غزہ بحران کے حل کے لیے مصر کی جانب سے تجویز کردہ منصوبے کا کوئی متبادل دستیاب نہیں اور، ان کے بقول، اگر تصادم کے آغاز پر ہی اس منصوبے کو قبول کرلیا جاتا تو اتنا خون نہ بہتا۔
انہوں نے کہا کہ مصری منصوبہ اب بھی قابلِ عمل اور بحران کو حل کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے اور اسے تسلیم کرنے کے لیے بحران کے تمام فریقوں کو آمادہ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
صدر السیسی نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے جنگ بندی کا منصوبہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں زمینی کارروائی کے آغاز سے قبل ہی تجویز کردیا تھا اور اگر اس پر اسی وقت عمل کرلیا جاتا تو بہت سی انسانی جانیں بچائی جاسکتی تھیں۔
حماس اور اسرائیل کے درمیان جمعے کو 72 گھنٹوں کی جنگ بندی موثر ہونے کے کچھ دیر بعد ہی ناکام ہونے اور اس کے بعد غزہ پر اسرائیلی بمباری میں شدت آنے کے باوجود مصری حکومت کی جانب سے فریقین کو جنگ بندی پر آمادہ کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
فریقین کو جنگ بندی پر آمادہ کرنے کے لیے امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری اور اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کے علاوہ مصر، ترکی اور قطر کی حکومتوں نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔
فریقین کے درمیان ہونے والے اتفاقِ رائے کے تحت جمعے کو صبح آٹھ بجے جنگ بندی موثر ہونے کے بعد فلسطینی اور اسرائیلی وفود کو قاہرہ پہنچنا تھا جہاں انہیں مستقل جنگ بندی پر مذاکرات کرنا تھے۔
مصری حکومت کا کہنا ہے کہ وہ جنگ بندی ناکام ہونے کے باوجود اب بھی فریقین کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کے لیے تیار ہے اور اس ضمن میں مصر اور دیگر ملکوں کی سفارتی سرگرمیاں اور رابطے ہفتے کو بھی جاری رہیں۔
لیکن اسرائیل نے فلسطینیوں کےساتھ مجوزہ مذاکرات کے لیے اپنا وفد مصر نہ بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ خیال رہے کہ اسرائیلی وفد کو ہفتے کو قاہرہ پہنچنا تھا۔
لیکن اسرائیل کے انکار کے باوجود فلسطینی اتھارٹی کے اعلیٰ مذاکرات کار صائب اراکات نے اعلان کیا ہے کہ مذاکرات میں شرکت کےلیے ہفتے کو ان کا وفد قاہرہ پہنچ جائے گا۔
خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق فلسطینی وفد میں 'پی ایل او' (فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن)، حماس کی جلا وطن قیادت اور مزاحمتی تنظیم 'اسلامک جہاد' کے نمائندے شامل ہوں گے۔
دریں اثنا جمعے کو غزہ میں لاپتہ ہونے والے اسرائیلی فوجی اہلکار کی تلاش کے لیے اسرائیلی فوجی دستوں نے غزہ کے جنوبی قصبے رفح میں کارروائی جاری رکھی۔
اسرائیل نے الزام عائد کیاہے کہ 23 سالہ سیکنڈ لیفٹننٹ حدار گولڈین کے اغوا میں حماس ملوث ہے لیکن 'حماس' نے کہا ہے کہ لاپتہ فوجی اہلکار اس کی تحویل میں نہیں۔
ہفتے کو اسرائیل نے مسلسل دوسرے روز بھی رفحہ کو بمباری کا نشانہ بنایا جب کہ 'حماس' کے زیرِ انتظام غزہ کی اسلامی یونیورسٹی پر بھی بم برسائے۔
فلسطینی حکام کے مطابق آٹھ جولائی سے جاری اسرائیلی فضائی حملوں میں 1650 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں اکثریت عام شہریوں، عورتوں اور بچوں کی ہے۔
فلسطینی مزاحمت کاروں کے ساتھ جھڑپوں اور ان کی جوابی کارروائیوں میں اب تک اسرائیل کے 63 فوجی اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔