مصر کے صدر محمد مرسی نے جمعرات کو تہران میں غیروابستہ تحریک کے سربراہ اجلاس میں اپنے خطاب میں کہا ہے کہ ان کا ملک بقول ان کے اپنا قانونی اختیار کھودینے والی ظالمانہ حکومت کے خلاف شام کے عوام کی جدوجہد کی حمایت کرتا ہے ۔ اس موقع پر شام کے وفد نے احتجاجاً اجلاس کا واک آؤٹ کیا۔
مسٹر مرسی 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد ایرانی دارالحکومت کا دورہ کرنے والے پہلے مصری راہنما ہیں۔
ان کے تہران کے سات گھنٹوں پر مشتمل دورے کو مصرکے میڈیا میں بڑے پیمانے پر سراہاگیا ۔ یہ دورہ ایک ایسے موقع پر ہوا ہے جب مصر غیر وابستہ ملکوں کی تحریک کی سربراہی ایران کو سونپنے والا ہے۔
غیر وابستہ ملکوں کی تحریک کے سبکدوش ہونے والے سربراہ مسٹر مرسی پوڈیم کے وسط ایران کے صدر محمود احمدی نژاد اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بن کی مون کے درمیان بیٹھے تھے اور ان کی تقریر کا مرکز شام تھا۔
وہ کہہ رہے تھے کہ یہ ہماری غیر جانب دار تنظیم کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ سٹرٹیجک اور سیاسی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ ایک جابرانہ حکومت کے خلاف شام کے عوام کی جدوجہد کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرے ۔
صدر مرسی نے تقریر کے دوران اپنے ایرانی میزبانوں پر تنقید کی جو ایک طویل عرصے سے صدر بشارالاسد کی حکومت کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مسٹر مرسی نے آزادی اور انصاف کے حصول کے لیے شام کے عوام کی جدوجہد کے ساتھ اپنی مکمل یک جہتی کا اعلان کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مصر اس تنازع کے خاتمے کے لیے تمام فریقوں کے ساتھ تعاون کا حامی ہے۔
ان کا کہناتھا کہ مصر وہ مزید خون خرابہ روکنے، اور ایک آزاد اور نئے شام کی تعمیر کے اصول و ضوابط کی تخلیق کے لیے تمام فریقوں کےساتھ تعاون کے لیے تیار ہے۔
صدر مرسی نے اپنے اس دورے میں ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کے ساتھ ملاقات نہیں کی ، جس پر کئی تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ مسٹر خامنہ ای شام کے بارے میں ان کے بیانات پر ناخوش تھے۔
لیکن مصر نے شام کے تنازع کے حل کے لیے تمام پارٹیوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنانے کی ایرانی تجویز سے اتفاق کیا۔
شام کے وفد نے اپنی حکومت پر صدر مرسی کے تبصروں پر احتجاج کرتے ہوئے کانفرنس ہال سے واک آؤٹ کیا۔
شام کے سرکاری ٹیلی ویژن نے مسٹر مرسی کی تقریر کا براہ راست نشریہ روک دیا اور بعدازاں اس پر تنقید کرتے ہوئے یہ کہا کہ ان کی تقریر سربراہ کانفرنس کے قواعد کی خلاف ورزی تھی۔
عراق کے شیعہ وزیر اعظم نوری المالکی جو شام کی حکومت کے لیے ایرانی حمایت کو پسند کرتے ہیں ، اس موقع پر مضطرب دکھائی دیے۔
لندن کے کنگز کالج کے مشرق وسطیٰ کے تجزیہ کار جیمز ڈین سیلو کا کہناہے کہ مسٹر مرسی کی شام پر غیر متوقع تنقید اور تہران کا خلاف معمول دورہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ سابق صدر حسنی مبارک کے عہدکے خاتمے کے بعد مصر کو آزاد خارجہ پالیسی کی جانب واپس لے جانا چاہتے ہیں۔
ڈین سیلو نے مسٹر مرسی کے تہران کے دورے کوبین الاقوامی منظر نامے پر مصر کی واپسی سے تعبیر کیا۔
توقع کی جارہی ہے کہ مصر کے نئے راہنما ستمبر میں اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس کے بعد واشنگٹن کا دورہ کریں گے۔
مسٹر مرسی 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد ایرانی دارالحکومت کا دورہ کرنے والے پہلے مصری راہنما ہیں۔
ان کے تہران کے سات گھنٹوں پر مشتمل دورے کو مصرکے میڈیا میں بڑے پیمانے پر سراہاگیا ۔ یہ دورہ ایک ایسے موقع پر ہوا ہے جب مصر غیر وابستہ ملکوں کی تحریک کی سربراہی ایران کو سونپنے والا ہے۔
غیر وابستہ ملکوں کی تحریک کے سبکدوش ہونے والے سربراہ مسٹر مرسی پوڈیم کے وسط ایران کے صدر محمود احمدی نژاد اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بن کی مون کے درمیان بیٹھے تھے اور ان کی تقریر کا مرکز شام تھا۔
وہ کہہ رہے تھے کہ یہ ہماری غیر جانب دار تنظیم کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ سٹرٹیجک اور سیاسی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ ایک جابرانہ حکومت کے خلاف شام کے عوام کی جدوجہد کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرے ۔
صدر مرسی نے تقریر کے دوران اپنے ایرانی میزبانوں پر تنقید کی جو ایک طویل عرصے سے صدر بشارالاسد کی حکومت کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مسٹر مرسی نے آزادی اور انصاف کے حصول کے لیے شام کے عوام کی جدوجہد کے ساتھ اپنی مکمل یک جہتی کا اعلان کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مصر اس تنازع کے خاتمے کے لیے تمام فریقوں کے ساتھ تعاون کا حامی ہے۔
ان کا کہناتھا کہ مصر وہ مزید خون خرابہ روکنے، اور ایک آزاد اور نئے شام کی تعمیر کے اصول و ضوابط کی تخلیق کے لیے تمام فریقوں کےساتھ تعاون کے لیے تیار ہے۔
صدر مرسی نے اپنے اس دورے میں ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کے ساتھ ملاقات نہیں کی ، جس پر کئی تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ مسٹر خامنہ ای شام کے بارے میں ان کے بیانات پر ناخوش تھے۔
لیکن مصر نے شام کے تنازع کے حل کے لیے تمام پارٹیوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنانے کی ایرانی تجویز سے اتفاق کیا۔
شام کے وفد نے اپنی حکومت پر صدر مرسی کے تبصروں پر احتجاج کرتے ہوئے کانفرنس ہال سے واک آؤٹ کیا۔
شام کے سرکاری ٹیلی ویژن نے مسٹر مرسی کی تقریر کا براہ راست نشریہ روک دیا اور بعدازاں اس پر تنقید کرتے ہوئے یہ کہا کہ ان کی تقریر سربراہ کانفرنس کے قواعد کی خلاف ورزی تھی۔
عراق کے شیعہ وزیر اعظم نوری المالکی جو شام کی حکومت کے لیے ایرانی حمایت کو پسند کرتے ہیں ، اس موقع پر مضطرب دکھائی دیے۔
لندن کے کنگز کالج کے مشرق وسطیٰ کے تجزیہ کار جیمز ڈین سیلو کا کہناہے کہ مسٹر مرسی کی شام پر غیر متوقع تنقید اور تہران کا خلاف معمول دورہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ سابق صدر حسنی مبارک کے عہدکے خاتمے کے بعد مصر کو آزاد خارجہ پالیسی کی جانب واپس لے جانا چاہتے ہیں۔
ڈین سیلو نے مسٹر مرسی کے تہران کے دورے کوبین الاقوامی منظر نامے پر مصر کی واپسی سے تعبیر کیا۔
توقع کی جارہی ہے کہ مصر کے نئے راہنما ستمبر میں اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس کے بعد واشنگٹن کا دورہ کریں گے۔