رسائی کے لنکس

اسرائیل اور حماس دوبارہ 72 گھنٹوں کی جنگ بندی پر آمادہ


غزہ میں اسرائیلی بمباری کا نشانہ بننے والی ایک عمارت کا منظر
غزہ میں اسرائیلی بمباری کا نشانہ بننے والی ایک عمارت کا منظر

ایک اسرائیلی اہلکار کے مطابق وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو کی سکیورٹی کابینہ نے مصر کے تجویز کردہ منصوبے کو قبول کرنے کی منظوری دیدی ہے۔

اسرائیل اور 'حماس' نے ایک بار پھر 72 گھنٹوں کے لیے عارضی جنگ بندی پر اتفاق کرلیا ہے جس کا آغاز منگل کی صبح سے ہوگا۔

عارضی جنگ بندی پر اتفاقِ رائے کا اعلان مصر کی جانب سے فریقین سے کی جانے والی جنگ بندی کی درخواست اور مذاکرات کی میزبانی کی پیش کش کے بعد پیر کی شب سامنے آیا ہے۔

مصر کی حکومت نے اسرائیل اور حماس پر زور دیا تھا کہ وہ غزہ میں ایک بار پھر 72 گھنٹوں کی عارضی جنگ بندی کرکے تنازع کے حل کے لیے مذاکرات شروع کریں۔

مصر کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے پیر کو جاری کیے جانے والے ایک بیان میں فریقین سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ منگل کی صبح پانچ بجے سے اگلے 72 گھنٹوں کے لیے لڑائی روک دیں۔

بیان میں دونوں فریقوں کو دعوت دی گئی تھی کہ وہ اپنے اعلیٰ رہنماؤں پر مشتمل وفود قاہرہ روانہ کریں تاکہ غزہ میں مستقل جنگ بندی پر مذاکرات کیے جاسکیں۔

مصری وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں امید ظاہر کی کہ 72 گھنٹوں کی عارضی جنگ بندی اور فریقین کے درمیان مذاکرات خطے میں جاری کشیدگی کے دیرپا حل اور امن کی بحالی کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے۔

ایک اسرائیلی اہلکار نے خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو کی سکیورٹی کابینہ نے مصری منصوبے کو قبول کرنے کی منظوری دیدی ہے۔

اہلکار کے مطابق اسرائیلی حکومت نے مصر کو مطلع کردیا ہے کہ اسے جنگ بندی کی تجویز قبول ہے اور وہ مجوزہ مذاکرات میں شرکت کے لیے اپنا وفد قاہرہ بھیجنے پر آمادہ ہے۔

غزہ کی حکمران جماعت 'حماس' کے ترجمان سمیع ابو زہری نے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ ان کی جماعت نے بھی جنگ بندی قبول کرنے کے فیصلے سے مصری حکومت کا آگاہ کردیا ہے۔

خیال رہے کہ فریقین کے درمیان بین الاقوامی کوششوں سے گزشتہ ہفتے طے پانے والی 72 گھنٹوں کی عارضی جنگ بندی موثر ہونے کے چند گھنٹوں بعد ہی ختم ہوگئی تھی۔

عارضی جنگ بندی کے معاہدے کے تحت فریقین کو قاہرہ میں مذاکرات کرنا تھے لیکن اسرائیل نے 'حماس' کو جنگ بندی کی خلاف ورزی کا ذمہ دار ٹہراتے ہوئے مذاکرات کےلیے اپنا وفد قاہرہ بھیجنے سے انکار کردیا تھا۔

تاہم فلسطینیوں کا وفد مقررہ شیڈول کے مطابق قاہرہ پہنچ گیا تھا جہاں اس نے فریقین کے درمیان ثالثی کرنےو الے مصری سفارت کاروں کے ساتھ پیر کو بھی بات چیت جاری رکھی۔

مذاکرات کے اس عمل کو امریکہ، اقوامِ متحدہ اور مغربی ملکوں کے علاوہ ترکی اور قطر کی حمایت بھی حاصل ہے۔

پیر کو ہونے والے مذاکرات کے بعد مصری سفارت کاروں نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ وہ فلسطینی وفد کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کے لیے پیش کی جانےوالی شرائط امریکہ اور اسرائیل کے علم میں لائیں گے۔

قاہرہ میں موجود فلسطینی وفد میں مغربی کنارے پر حکمران فلسطینی اتھارٹی کے نمائندوں کے علاوہ غزہ کی حکمران جماعت 'حماس' اور فلسطینی مزاحمتی تنظیم 'اسلامک جہاد' کے نمائندے بھی شامل ہیں۔

غزہ سے لوٹنے والے اسرائیلی سپاہی عبادت میں مصروف ہیں
غزہ سے لوٹنے والے اسرائیلی سپاہی عبادت میں مصروف ہیں

اسرائیل کا حملے جاری رکھنے کا عزم

اس سے قبل پیر کو اسرائیل کی جانب سے سات گھنٹوں کی یک طرفہ جنگ بندی کے خاتمے پر اسرائیلی وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو نے غزہ پر حملے روکنے کے لیے عالمی دباؤ اور دیرپا جنگ بندی کے مطالبات کے باوجود 'حماس' کے خلاف لڑائی جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔

پیر کی شام اپنے ایک بیان میں وزیرِاعظم نیتن یاہو نے کہا تھا کہ حماس کی جانب سے اسلحہ ذخیرہ کرنے اور سرحد پار اسرائیل میں داخلے کے لیے کھودی جانے والی سرنگوں کو تباہ کرنے کا اسرائیلی آپریشن اختتام کے قریب ہے۔

لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ غزہ میں 28 روز سے جاری اسرائیلی فوجی کارروائی اس وقت تک جاری رکھی جائے گی جب تک اسرائیل کے شہریوں کو "طویل سکون اور سلامتی " میسر آئے گی۔

پیر کو اسرائیل کی جانب سے عارضی جنگ بندی کے دوران بھی غزہ کے بعض علاقوں پر اسرائیلی حملے جاری رہے۔ صبح 10 بجے سے شام 5 بجے تک جار ی رہنےو الی یک طرفہ جنگ بندی کے خاتمے کے بعد اسرائیلی فوج نے اپنی کارروائی پھر سے شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔

فلسطینی حکام نے الزام عائد کیا ہے کہ جنگ بندی موثر ہونے کے چند منٹ بعد ہی اسرائیل نے غزہ کے ایک مہاجر کیمپ پر فضائی حملہ کیا جس میں ایک آٹھ سالہ لڑکی ہلاک او ر 30 افراد زخمی ہوگئے۔

اسرائیلی فوج نے فلسطینی جنگجووں پر جنگ بندی کے دوران غزہ سے اسرائیل پر راکٹ حملوں کا جوابی الزام بھی عائد کیا ہے۔

فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ غزہ پر آٹھ جولائی سے جاری اسرائیلی بمباری، فضائی حملوں اور زمینی کارروائی میں اب تک 1830 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن کی اکثریت عام شہریوں، عورتوں اور بچوں پر مشتمل ہے۔

اسرائیلی کارروائی کے نتیجے میں لگ بھگ 10 ہزار فلسطینی شہری زخمی ہوئے ہیں جب کہ اسرائیلی بمباری سے اب تک غزہ کی پٹی کے تین ہزار سے زائد گھر تباہ ہوچکے ہیں یا انہیں بری طرح نقصان پہنچا ہے۔

اسرائیلی فوج کے مطابق فلسطینی مزاحمت کاروں کے حملوں اور دو بدو لڑائی میں اب تک اس کے 64 فوجی اہلکار مارے گئے ہیں۔ غزہ سے اسرائیل پر داغے جانے والے راکٹوں کے نتیجے میں اب تک تین اسرائیلی شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں۔

یروشلم میں ایک فلسطینی کی جانب سے کیے جانے والے حملے کے بعد کا منظر، حملہ آور کی لاش سفید چادر سے ڈھکی ہوئی ہے
یروشلم میں ایک فلسطینی کی جانب سے کیے جانے والے حملے کے بعد کا منظر، حملہ آور کی لاش سفید چادر سے ڈھکی ہوئی ہے


یروشلم میں حملے

دریں اثنا پیر کو یروشلم میں ہونے والے دو مختلف حملوں میں کم از کم ایک اسرائیلی شہری ہلاک اور ایک فوجی زخمی ہوگیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق ایک فلسطینی شخص نے تعمیراتی کاموں میں استعمال ہونے والا ایک بڑا ایکسکویٹر ایک بس سے ٹکرادیا جس کےنتیجے میں ایک راہگیر ہلاک ہوگیا۔

پولیس کے مطابق بس میں کوئی مسافر موجود نہیں تھا جس کے باعث حملے میں مزید جانی نقصان نہیں ہوا۔ پولیس نے بعد ازاں ایکسکویٹر میں سوار فلسطینی کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔

واقعہ کے کچھ گھنٹوں بعد یروشلم کی 'عبرانی یونیورسٹی' کے نزدیک ایک موٹر سائیکل سوار ایک اسرائیلی فوجی کو گولیاں مار کر زخمی کرنے کے بعد جائے واقعہ سے فرار ہوگیا۔

اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق حملے غزہ میں جاری اسرائیلی فوجی کارروائی کے خلاف ردِ عمل میں کیے گئے ہیں جنہیں اسرائیلی پولیس نے دہشت گردی کی وارداتیں قرار دیا ہے۔

XS
SM
MD
LG