امریکہ نے مصر میں حکومت مخالف مظاہروں کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو دھمکانے کے لیے شروع کی گئی ایک طے شدہ مہم کی مذمت کی ہے۔
واشنگٹن میں وزارت خارجہ کے ترجمان پی جے کراؤلی نے سماجی رابطو ں کی ویب سائٹ’ ٹوِٹر‘ پر جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا ہے کہ ” قاہرہ میں بین الاقوامی صحافیوں کو دھمکانے اور اُن کی رپورٹنگ میں مداخلت کے لیے ایک باقاعدہ مہم شروع کی گئی ہے جو ایک قابل مذمت فعل ہے۔ “
ایک روز قبل نیویارک میں قائم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے کہا تھا کہ مصر میں صحافیوں کو جان بوجھ کر تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور مصری فوج سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
غیر ملکی صحافیوں نے جمعرات کو التحریر اسکوائر میں مظاہروں کے دوران صدر حسنی مبارک کے حامیوں کی طرف سے ان پر کیے گئے حملوں کی شکایت کی ہے۔ ایک یونانی صحافی کی ٹانگ میں پیچ کس گھونپا گیا جب کہ یونان کے ہی ایک دوسرے فوٹو گرافر پر ایک ٹولے نے گھونسے مارے اور اس کے کیمرے اور دیگر آلات کو بھی نقصان پہنچایا۔
العریبیہ چینل نے بھی مصری فوج سے اپنے دفاتر اور صحافیوں کی اپیل کی خبر بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کی ہے۔ تاہم صدر حسنی مبارک کے ایک ترجمان نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے خلاف تشدد کے ان واقعات میں حکومت کے ملوث ہونے کے دعوؤں کو جھوٹ پر مبنی قرار دیا ہے۔
الجزیرہ ٹی وی پر بھی نشر ہونے والی خبر میں بھی کہا گیا ہے کہ اس کے دو نمائندوں پر ’غنڈوں‘نے حملہ کیا تاہم یہ واقعہ کب پیش آیا اس بارے میں ٹی وی چینل نے کوئی تفصیل نہیں دی ہے۔ امریکہ کے اے بی سی نیوز انٹرنیشنل کی نمائندہ کرسٹیانا امان پور نے کہا ہے کہ بدھ کے روز ان کی گاڑی کو کئی افراد نے گھیرے میں لے کر اس پر لاتوں اور گھونسوں سے حملہ کرکے انھیں خوفزدہ کرنے کی کوشش کی تاہم اس واقعے میں کوئی زخمی نہیں ہوا۔
سی این این کے اینڈرسن کوپر کا کہنا ہے کہ اس کے ایک پروڈیوسر اور کیمرہ مین کی بھی لوگوں نے پٹائی کی اور ان کے کیمروں کو توڑنے کی کوشش کی۔