دنیا پھر کے ممالک مصری صدر حسنی مبارک کی طرف سے استعفیٰ کے اقدام کا خیرمقدم کر رہے ہیں، جس سے قبل کئی ہفتوں کے دوران یہ عالمی راہنما تیزی سے اصلاحات کے لیے دباؤ ڈالتے رہے ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ میں غزہ اور فلسطین میں مسٹر مبارک کی دست برداری کا سن کر لوگوں نےجشن منایا۔ حماس نے استعفے کو ‘مصری انقلاب’ کی ابتدا قرار دیا۔
اسرائیل میں ایک اعلیٰ عہدے دار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مسٹر مبارک کا استعفیٰ مصری تاریخ کا ایک اہم موڑ ثابت ہوگا۔ عہدے دار نے بتایا کہ اسرائیل کو توقع ہے کہ اقتدار کا عبوری دور پُرامن اور شائستہ انداز سے مکمل ہوگا۔
عہدے دار نے کہا کہ اسرائیل کا مصر کے ساتھ امن کا معاہدہ علاقے میں استحکام کےعنصر کے طور پر جاری رہنا چاہیئے۔
یورپی یونین کے بیرونی امور کی سربراہ، کیتھرین ایشٹن نے کہا کہ دست برداری ہونے کا مسٹر مبارک کا فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ اُنھوں نے مصری عوام کی آواز سُن لی ہے اور ملک کا مستقبل اُنہی کے حوالے کردیا ہے۔ اب اُنھوں نے تیز تر مکالمے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ ایسی حکومت تشکیل پائے جو عوام کی امنگوں کے عین مطابق کام کرسکے۔
جرمن چانسلر اینگلا مرخیل نے مسٹر مبارک کی طرف سے اقتدار فوج کے حوالے کرنے کے فیصلے کو مصر کے لیے تاریخی تبدیلی کا مرحلہ قرار دیا ہے۔