واشنگٹن —
مصر کی ایک عدالت نے سابق حکمران جماعت 'اخوان المسلمون' کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرتے ہوئے اس کے تمام اثاثے سرکاری تحویل میں لینے کا حکم دیا ہے۔
دارالحکومت قاہرہ کی ایک عدالت نے پیر کو سنائے جانے والے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اخوان کی فلاحی تنظیم اور دیگر تما م ذیلی تنظیموں اور اداروں کی سرگرمیوں پر بھی پابندی ہوگی۔
عدالت نے ملک کی عبوری حکومت کا حکم دیا ہے کہ وہ 'اخوان المسلمون' کے تمام فنڈز اور اثاثے اپنی تحویل میں لے کر ان کا انتظام سنبھال لے۔
خیال رہے کہ تین جولائی کو اخوان سے تعلق رکھنے والے مصر کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کے خلاف فوجی بغاوت کے بعد سے عالمِ عرب کی سب سے بڑی اور منظم اسلام پسند جماعت کی شناخت رکھنے والی 'اخوان المسلمون' کے خلاف ملک بھر میں کریک ڈاؤن جاری ہے۔
قیاس کیا جارہا ہے کہ عدالت کے اس حکم کے بعد فوج کی حمایت یافتہ مصر کی عبوری حکومت اخوان کے خلاف پہلے سے جاری کریک ڈاو ٔن میں مزید شدت لے آئی گی۔
تین جولائی کو صدر مرسی کا تختہ الٹنے کےبعد سے اب تک اخوان کے سیکڑوں حامی مصر کی سکیورٹی فورسزکے ہاتھوں ہلاک ہوچکےہیں جب کہ تنظیم کے بیشتر رہنماؤں سمیت ہزاروں کارکن جیلوں میں قید ہیں۔
لیکن مصر کی عبوری انتظامیہ اور سکیورٹی فورسز کی ان تمام کاروائیوں کے باوجود اخوان المسلمون کے کارکن اور حامی ملک کے مختلف شہروں میں روزانہ کی بنیاد پر بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں جس کےباعث عرب دنیا کے اس سب سے گنجان آباد ملک میں گزشتہ تین ماہ سے جاری سیاسی بحران ختم ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔
خیال رہے کہ 'اخوان المسلمون' نے 2011ء کی مقبول عوامی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں اس وقت کے آمر صدر حسنی مبارک کے اقتدار چھوڑنے کے بعد ہونے والے پارلیمانی اور پھر صدارتی انتخاب میں کامیابی حاصل کرکے اقتدار سنبھالا تھا۔
لیکن اخوان سے تعلق رکھنے والے صدر محمد مرسی کو اقتدار کی پہلی سال گرہ کے موقع پر فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی نے برطرف کرکے اقتدار ٹیکنوکریٹس پر مشتمل عبوری حکومت کےحوالے کردیا تھا جس میں اکثریت سابق فوجی صدر حسنی مبارک کے ساتھیوں کی ہے۔
اپنے قیام کے 85 برسوں کے دوران میں 'اخوان المسلمون' پر زیادہ تر وقت پابندی رہی ہے اور مصر پر مجموعی طور پہ 60 برسوں تک برسرِ اقتدار رہنے والے تین فوجی صدور جنرل جمال عبدالناصر، انوار السادات اور حسنی مبارک کے ادوار میں اخوان کے رہنماؤں اور کارکنوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں۔
اخوان کا دعویٰ ہے کہ مصر میں ان کے ارکان کی تعداد 10 لاکھ سے زائد ہے جب کہ اس کے سیکڑوں تعلیمی، طبی اور فلاحی ادارے ملک بھر میں کام کر رہے ہیں۔
دارالحکومت قاہرہ کی ایک عدالت نے پیر کو سنائے جانے والے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اخوان کی فلاحی تنظیم اور دیگر تما م ذیلی تنظیموں اور اداروں کی سرگرمیوں پر بھی پابندی ہوگی۔
عدالت نے ملک کی عبوری حکومت کا حکم دیا ہے کہ وہ 'اخوان المسلمون' کے تمام فنڈز اور اثاثے اپنی تحویل میں لے کر ان کا انتظام سنبھال لے۔
خیال رہے کہ تین جولائی کو اخوان سے تعلق رکھنے والے مصر کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کے خلاف فوجی بغاوت کے بعد سے عالمِ عرب کی سب سے بڑی اور منظم اسلام پسند جماعت کی شناخت رکھنے والی 'اخوان المسلمون' کے خلاف ملک بھر میں کریک ڈاؤن جاری ہے۔
قیاس کیا جارہا ہے کہ عدالت کے اس حکم کے بعد فوج کی حمایت یافتہ مصر کی عبوری حکومت اخوان کے خلاف پہلے سے جاری کریک ڈاو ٔن میں مزید شدت لے آئی گی۔
تین جولائی کو صدر مرسی کا تختہ الٹنے کےبعد سے اب تک اخوان کے سیکڑوں حامی مصر کی سکیورٹی فورسزکے ہاتھوں ہلاک ہوچکےہیں جب کہ تنظیم کے بیشتر رہنماؤں سمیت ہزاروں کارکن جیلوں میں قید ہیں۔
لیکن مصر کی عبوری انتظامیہ اور سکیورٹی فورسز کی ان تمام کاروائیوں کے باوجود اخوان المسلمون کے کارکن اور حامی ملک کے مختلف شہروں میں روزانہ کی بنیاد پر بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں جس کےباعث عرب دنیا کے اس سب سے گنجان آباد ملک میں گزشتہ تین ماہ سے جاری سیاسی بحران ختم ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔
خیال رہے کہ 'اخوان المسلمون' نے 2011ء کی مقبول عوامی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں اس وقت کے آمر صدر حسنی مبارک کے اقتدار چھوڑنے کے بعد ہونے والے پارلیمانی اور پھر صدارتی انتخاب میں کامیابی حاصل کرکے اقتدار سنبھالا تھا۔
لیکن اخوان سے تعلق رکھنے والے صدر محمد مرسی کو اقتدار کی پہلی سال گرہ کے موقع پر فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی نے برطرف کرکے اقتدار ٹیکنوکریٹس پر مشتمل عبوری حکومت کےحوالے کردیا تھا جس میں اکثریت سابق فوجی صدر حسنی مبارک کے ساتھیوں کی ہے۔
اپنے قیام کے 85 برسوں کے دوران میں 'اخوان المسلمون' پر زیادہ تر وقت پابندی رہی ہے اور مصر پر مجموعی طور پہ 60 برسوں تک برسرِ اقتدار رہنے والے تین فوجی صدور جنرل جمال عبدالناصر، انوار السادات اور حسنی مبارک کے ادوار میں اخوان کے رہنماؤں اور کارکنوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں۔
اخوان کا دعویٰ ہے کہ مصر میں ان کے ارکان کی تعداد 10 لاکھ سے زائد ہے جب کہ اس کے سیکڑوں تعلیمی، طبی اور فلاحی ادارے ملک بھر میں کام کر رہے ہیں۔