رسائی کے لنکس

مصر: عیسائی کمیونٹی سے برتاؤ پر مضمون لکھنے والے گرفتار انسانی حقوق کے کارکن کی رہائی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

مصر میں انسانی حقوق کے ایک گروپ اور ایک عدالتی ذریعے نے بتایا ہے کہ ملک کی ایک عدالت نے منگل کے روز جیل میں قید ایک ریسرچر پیٹرک ذکی کو رہا کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ اٹلی کے وزیر اعظم نے اس فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

اٹلی کی یونیورسٹی آف بولوگنا کے گریجویٹ ایک مصری شخص پیٹرک ذکی کو فروری 2020 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ مصر کے دورے پر تھے۔ ان پر مصر کے عیسائیوں کی حالت کے بارے میں لکھے گئے ایک مضمون کے ذریعے غلط معلومات پھیلانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

ذکی کا معاملہ اٹلی میں دوسری بار گفتگو کا موضوع بنا ہے۔ اس سے قبل 2016 میں مصر میں ایک اطالوی گریجویٹ طالب علم جیولیو ریگینی کے قتل کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات متاثر ہو گئے تھے۔

مصر کے انسانی حقوق کے ایک گروپ 'ای آئی پی آر' کی عہدے دار لبنا درویش نے کہا ہے کہ مقدمے کی دوبارہ سماعت یکم فروری کو ہو گی، اس موقع پر دلائل سننے کی ضرورت ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ جج نے ابھی کارروائی معطل کی ہے اور اس دوران ذکی کو رہا کر دیا گیا ہے۔ تاہم، یہ واضح نہیں ہے کہ اسے فی الواقع کب چھوڑا جائے گا۔

درویش نے کہا کہ قاہرہ کے شمال میں واقع اپنے آبائی شہر منصورہ میں منگل کے روز عدالت میں سماعت شروع ہونے پر ذکی وہاں موجود تھے، لیکن جب جج نے اپنا فیصلہ سنایا تو وہ کمرے میں نہیں تھے۔

اطالوی وزیر اعظم ماریو ڈراگی کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں اس فیصلے پر "اطمینان" کا اظہار کیا گیا ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ، "اس معاملے پر اطالوی حکومت کی گہری نظر ہے جو برقرار رہے گی۔"

اٹلی کے وزیر خارجہ لوئیگی ڈی ماریو نے ٹوئٹر پر کہا ہے کہ، "پہلا مقصد حاصل کر لیا گیا ہے۔ پیٹرک ذکی اب جیل میں نہیں ہیں۔"

ذکی نے مصر میں حقوق کے ایک آزاد گروپ 'ای ای پی آر' میں ایک ریسرچر کے طور پر بھی کام کیا ہے۔ ستمبر میں اس مقدمے کی سماعت شروع ہونے سے پہلے انہیں ڈیڑھ سال سے زائد عرصے تک قبل از سماعت حراست میں رکھا گیا تھا۔

'ای آئی پی آر' کا کہنا ہے کہ ذکی پر تشدد کیا گیا، بجلی کے جھٹکے لگائے گئے اور گرفتاری کے بعد دھمکیاں دی گئیں۔ مصری حکام نے 'ای آئی پی آر' کے دعووں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

تاہم حکام سیکیورٹی فورسز اور حراستی مقامات پر ناروا سلوک کے الزامات کی مسلسل تردید کرتے رہتے ہیں۔

مصر میں 2013 میں فوج کے سربراہ عبدالفتاح السیسی نے اخوان المسلمون کے صدر محمد مرسی کو معزول کر دیا تھا جس کے بعد سے سیاسی اختلاف رکھنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔

السیسی جو 2014 سے صدر ہیں، کہتے ہیں کہ سلامتی اور استحکام سب سے اہم ہے اور وہ مصر میں سیاسی قیدیوں کی موجودگی کی تردید کرتے ہیں۔

(اس رپورٹ کا کچھ مواد رائٹرز سے حاصل کیا گیا ہے)

XS
SM
MD
LG