امریکہ کے نئے صدر کے انتخاب کا دن آ پہنچا اور منگل کو امریکی اپنی نئی قیادت کے لیے رائے شماری میں حصہ لے رہے ہیں۔
امریکہ کے ریاستی اور انتخابی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ ووٹوں کی شرح میں قابل ذکر اضافہ اور کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔
امریکی خبرر ساں ایجنسی "ایسوسی ایٹڈ پریس" کے مطابق پیر تک قبل از انتخاب ہونے والی ووٹنگ میں تقریباً چار کروڑ 32 لاکھ رائے دہندگان اپنا ووٹ ڈال چکے تھے اور توقع یہی ہے کہ یہ تعداد پانچ کروڑ تک پہنچ جائے گی۔
ان اعداد و شمار کو سامنے رکھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ 40 فیصد امریکی رائے دہندگان انتخابات کے دن سے پہلے ہی اپنا ووٹ ڈال چکے ہیں۔ قبل از انتخاب ووٹوں کی زیادہ شرح 23 ریاستوں اور ڈسٹرکٹ آف کولمبیا میں ریکارڈ کی گئی۔
رائے عامہ کے تازہ ترین جائزوں میں ڈیموکریٹ امیدوار ہلری کلنٹن کو حریف ریپبلکن ڈونلڈ ٹرمپ پر برتری حاصل ہے لیکن بعض ریاستوں میں اس برتری کا فرق بہت ہی معمولی ہے۔
پیر کو دیر گئے انتخابی مہم کے اختتامی لمحات میں بھی دونوں امیدواروں کی طرف سے اپنے اپنے حامیوں کو قائل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
فلوریڈا میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حامیوں سے خطاب میں کہا کہ یہ انتخاب "واشنگٹن کی بدعنوان اشرافیہ" کے لیے راستہ بند کرنے کے مترادف ہو گا۔
وہ خود کو امریکی سیاست میں ایک نو وارد قرار دے کر اشرافیہ پر تنقید کرتے آئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ "میں اشرافیہ سے کہتا ہوں کہ یہ سنے جو ہم سب آج کہہ رہے ہیں، کل جب ہم انتخاب میں جیت جائیں گے تو ہم یہ ساری دلدل صاف کر دیں گے۔"
ایک مرتبہ پھر ٹرمپ نے اپنی حریف کلنٹن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اگر وہ صدر منتخب ہو گئے تو ہلری کلنٹن سرکاری امور کے لیے ذاتی ای میل سرور استعمال کرنے پر جیل میں ہوں گی۔
ہلری کلنٹن نے فلاڈیلفیا میں انتخابی مہم کے آخری لمحات اپنے ہزاروں حامیوں کے ساتھ گزارے۔
انھوں نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ براک اوباما کی زیر قیادت گزشتہ آٹھ سالوں میں ہونے والی ترقی کو برقرار رکھنے کے لیے گھروں سے نکلیں اور ووٹ ڈالیں۔
انھوں نے انتخابات کو ملک کی "اقدار" کے لیے ریفرنڈم بھی قرار دیا۔