پاکستان میں ایک الیکشن ٹربیونل نے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 154 کے انتخابی نتیجے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے وہاں دوبارہ انتخاب کرانے کا حکم دیا ہے۔
پنجاب کے شہر لودھراں کے اس حلقے میں مئی 2013ء کے عام انتخابات میں آزاد امیدوار صدیق خان بلوچ نے 86,177 ووٹ لے کر پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار جہانگیر خان ترین کو شکست دی تھی جو 75,955 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔
بعد میں کامیاب ہونے والے امیدوار صدیق بلوچ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔
جہانگیر ترین نے الیکشن کے نتیجے کو مسترد کرتے ہوئے یہاں مخالف امیدوار پر دھاندلی کا الزام لگایا تھا اور دوبارہ گنتی کے لیے رجوع کیا تھا۔
جب لودھراں کے ضلعی ریٹرننگ افسر نے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی تو صدیق خان بلوچ کو ایک ہزار ووٹ زیادہ ملے۔
مگر جہانگیر ترین نے دوبارہ گنتی کو بھی مسترد کر دیا اور الیکشن ٹریبونل میں درخواست دی اور مؤقف اختیار کیا کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے۔ انہوں نے صدیق خان بلوچ کی تعلیمی اسناد کو بھی چیلنج کیا تھا۔
الیکشن ٹربیونل نے درخواست پر کارروائی کے بعد رواں سال 22 اگست کو اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جو کہ بدھ کو سنایا جس کے مطابق این اے 154 کے انتخابی نتیجے کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔
گزشتہ ہفتے ایک الیکشن ٹربیونل نے پاکستان تحریک انصاف کے ارکان کی درخواستوں کی سماعت کے بعد قومی اسمبلی کے حلقے این اے 122 اور پنجاب اسمبلی کے حلقے پی پی 147 کے الیکشن کو بھی کالعدم قرار دے دیا تھا اور وہاں دوبارہ پولنگ کرانے کا حکم دیا تھا۔
این اے 122 میں مسلم لیگ (ن) کے ایاز صادق نے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو شکست دی تھی جس پر ’پی ٹی آئی‘ نے انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے الیکشن ٹربیونل میں درخواست جمع کروا رکھی تھی۔
اس سے قبل مئی میں ایک الیکشن ٹربیونل نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 125 کے نتائج کو بھی کالعدم قرار دیا تھا جس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے خواجہ سعد رفیق نے پی ٹی آئی کے حامد خان کو شکست دی تھی۔
مگر سعد رفیق نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس نے اس فیصلے کو معطل کر کے سعد رفیق کی رکنیت کو بحال کر دیا تھا۔ ابھی ان کی درخواست پر حتمی فیصلہ آنا باقی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف گزشتہ عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) پر بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے سراپا احتجاج رہی ہے لیکن ان الزامات کی تحقیقات کرنے والی عدالتی کمیشن نے یہ تحقیق کے بعد یہ نتیجہ پیش کیا تھا کہ مئی 2013ء کے انتخابات میں بے ضابطگیاں ضرور ہوئیں لیکن منظم دھاندلی کے شواہد نہیں ملے۔