اسلام آباد —
پاکستان میں موسم گرما کی شدت اضافے کے بعد بجلی کی طلب بھی بڑھ گئی ہے۔
اس صورت کا جائزہ لینے کے لیے پیر کو نگراں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو نے ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا، جس میں اُنھوں نے وزارت خزانہ کو ہدایت کی کہ وہ بجلی کے موجودہ بحران پر قابو پانے کے لیے فوری طور پر ساڑھے بائیس ارب روپے جاری کرے۔
وزارت پانی و بجلی کے نگراں وزیر ڈاکٹر مصدق ملک نے ایک نیوز کانفرس میں اجلاس کی مزید تفصیلات بتائے ہوئے کہا کہ تیل سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ چلانے کے لیے استعمال کی جائے گی۔
’’اگر وزارت پیٹرولیم کو پیسے نہیں ملتے تو تیل نہیں منگوا سکتے… اور اگر ہمیں تیل نہیں ملے تو ہم آپ کو بجلی فراہم نہیں کر سکتے… یہ جو ریلیف ہمیں ملا ہے اس سے ہم لگ بھگ ساڑھے بارہ ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کر سکیں گے۔‘‘
حکام کے مطابق اس وقت ملک میں بجلی کی کھپت لگ بھگ 15 ہزار میگاواٹ جب کہ پیداور تقریباً 10 ہزار میگاواٹ ہے۔
طلب اور رسد میں پانچ ہزار میگاواٹ کے اس فرق کے باعث ملک کے مختلف حصوں خصوصاً دیہاتوں میں طویل دورانیے کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ جاری ہے اور پیر کو بعض علاقوں میں احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے۔
پاکستان کو حالیہ برسوں میں توانائی کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑا اور 11 مئی کے انتخابات میں کامیاب ہونے والی جماعت مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف اور دیگر سیاسی رہنماء یہ کہہ چکے ہیں کہ بجلی کے بحران پر قابو پانا آئندہ حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو گا۔
بجلی کی طویل دورانیے کی لوڈ شیڈنگ سے نہ صرف گھریلو صارفین بری طرح متاثر ہو رہے ہیں بلکہ صنعت کاروں اور کاروباری طبقے کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔
اس صورت کا جائزہ لینے کے لیے پیر کو نگراں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو نے ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا، جس میں اُنھوں نے وزارت خزانہ کو ہدایت کی کہ وہ بجلی کے موجودہ بحران پر قابو پانے کے لیے فوری طور پر ساڑھے بائیس ارب روپے جاری کرے۔
وزارت پانی و بجلی کے نگراں وزیر ڈاکٹر مصدق ملک نے ایک نیوز کانفرس میں اجلاس کی مزید تفصیلات بتائے ہوئے کہا کہ تیل سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ چلانے کے لیے استعمال کی جائے گی۔
’’اگر وزارت پیٹرولیم کو پیسے نہیں ملتے تو تیل نہیں منگوا سکتے… اور اگر ہمیں تیل نہیں ملے تو ہم آپ کو بجلی فراہم نہیں کر سکتے… یہ جو ریلیف ہمیں ملا ہے اس سے ہم لگ بھگ ساڑھے بارہ ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کر سکیں گے۔‘‘
حکام کے مطابق اس وقت ملک میں بجلی کی کھپت لگ بھگ 15 ہزار میگاواٹ جب کہ پیداور تقریباً 10 ہزار میگاواٹ ہے۔
طلب اور رسد میں پانچ ہزار میگاواٹ کے اس فرق کے باعث ملک کے مختلف حصوں خصوصاً دیہاتوں میں طویل دورانیے کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ جاری ہے اور پیر کو بعض علاقوں میں احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے۔
پاکستان کو حالیہ برسوں میں توانائی کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑا اور 11 مئی کے انتخابات میں کامیاب ہونے والی جماعت مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف اور دیگر سیاسی رہنماء یہ کہہ چکے ہیں کہ بجلی کے بحران پر قابو پانا آئندہ حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو گا۔
بجلی کی طویل دورانیے کی لوڈ شیڈنگ سے نہ صرف گھریلو صارفین بری طرح متاثر ہو رہے ہیں بلکہ صنعت کاروں اور کاروباری طبقے کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔