افغانستان کے چیف ایگذیکٹو عبداللہ عبداللہ نے آج بدھ کے روز کہا ہے کہ طالبان کی طرف سے مزاکرات میں افغان حکومت کی شمولیت سے انکار کا مطالب یہ ہو گا کہ 17 برس سے جاری تنازعے کا خاتمہ محض ایک ’خواب‘ ہی رہے گا۔
عبداللہ عبداللہ کے اس بیان سے ایک روز قبل طالبان نے قطر میں ہونے والے امریکی اہلکاروں سے مجوزہ مزاکرات اس بات پر منسوخ کر دئے تھے کہ اُن میں افغان اہلکار بھی شرکت کر رہے تھے ۔ اس سے پہلےحالیہ ہفتوں کے دوران مزاکرات کے ذریعے اس تنازعے کے حل کے امکانات بڑھ گئے تھے۔
امریکہ طالبان لیڈروں پر زور دے رہا ہے کہ وہ افغان حکام کے ساتھ بات چیت کرے۔ تاہم طالبان کا کہنا ہے کہ اصل فریق امریکہ ہی ہے اور افغان انتظامیہ درحقیقت امریکہ کی کٹھ پتلی حکومت ہے۔
افغانستان کے چیف ایگذیکٹو عبداللہ عبداللہ نے کابل میں افغان آئین کے نفاذ کی پندرہویں ویں سالگرہ کے موقع پر ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ، ’’امن کیلئے ایک ایسا سمجھوتا کبھی نہیں ہو گا اور محض خواب ہی رہے گا جس میں بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل ہونے والے ہمارے شہریوں کے حقوق کا احترام نہ ہو۔‘‘
اُنہوں نے کہا کہ آجکل غیر ملکی فوجوں کو واپس بلانے کی بات کی جاتی ہے اور یہ جنگ کو جاری رکھنے اور مزید مواقع حاصل کرنے کا ایک بہانہ ہی ہے۔
طالبان کے ایک لیڈر نے نیوز ایجنسی رائیٹرز کو بتایا ہے کہ امریکی نمائیندے زلمے خلیل زاد کے ساتھ ہونے والے مزاکرات کے مجوزہ چوتھے دور میں بات چیت کا محور افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلاء، قیدیوں کا تبادلہ اور طالبان لیڈروں کی نقل و حرکت پر پابندیوں کا خاتمہ ہوتا۔
طالبان لیڈر کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے امریکہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ 25,000 قیدیوں کو رہا کرے اور وہ اس کے بدلے 3,000 قیدیوں کو رہا کر دیں گے۔ تاہم امریکی اہلکار قیدیوں کے تبادلے کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔
افغانستان میں جاری جنگ امریکہ کی بیرون ملک فوجی کارروائی میں سب سے طویل شرکت ہے جس سے امریکہ کو لگ بھگ 10 کھرب ڈالر کا نقصان ہوا اور اس میں اُس کے کئی ہزار اہلکاروں کی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔
عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ افغانستان میں امریکی سرکردگی میں فوجوں نے 2001 میں طالبان حکومت کا خاتمہ کیا تھا اور اُس وقت سے طالبان کی سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اُنہوں نے اس سلسلے میں بالواسطہ طور پر پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جو ملک طالبان کی حمایت کرتا ہے اُس نے بھی بدقسمتی سے اب تک اپنی سوچ نہیں بدلی ہے۔
دوسری جانب پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ طالبان پر زور دیتا رہا ہے کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ براہ راست بات چیت کرے۔