امریکہ کا شمالی مشرقی شہر نیویارک جہاں کے مکینوں کی ایک بڑی تعدار تارکین وطن کی ہے، وہاں اب ٹیکسی ڈرائیوروں کے لیے انگریزی زبان جاننا لازمی نہیں رہا ہے۔
نیویارک کی سٹی کونسل کی طرف سے اپریل میں منظور ہونے والے بل کو جمعہ کو باقاعدہ قانون کے طور پر نافذ کرنے کے بعد اب ٹیکسی چلانے کے لیے لائسنس کے حصول کے لیے ٹیسٹ غیر ملکی زبانوں میں بھی دیے جا سکتے ہیں۔
ٹیکسی اور لیموزین کمیشن کے مطابق نیویارک شہر کی ٹیکسی چلانے والوں سے وابستہ افراد میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو دوسرے ملکوں میں پیدا ہوئے جب کہ نیویارک میں ٹیکسی چلانے والوں کی صرف چار فیصد تعداد امریکہ میں پیدا ہونے والوں کی ہے۔
نیویارک کے مکینوں میں سے چند ایک کو تشویش ہے کہ نئے قانون کے بعد ڈرائیوروں اور ٹیکسی مسافروں کے درمیان بات چیت زیادہ مشکل ہو جائے گا اور انہیں نہیں معلوم کہ وہ ڈرائیوروں کو کیسے بتائیں گے وہ کہاں جانے چاہتے ہیں اور اس کے لیے کونسا راستہ اختیار کیا جائے۔
تاہم یہ دیکھا گیا ہے کہ گلوبل پوزیشننگ سسٹم یعنی 'جی پی ایس' اور نیویگیشن کی ایپلیکیشنز کی سہولت کی وجہ سے ڈرائیوروں اور مسافروں کے درمیان بات چیت کی ضرورت کم ہو گئی ہے۔
سٹی کونسل میں اس بل کو پیش کرنے والوں کا موقف ہے کہ اس قانون کی وجہ سے زیادہ تارکین وطن اپنی گزر بسر کے لیے کام کرنے کے قابل ہو سکیں گے اور نیویارک کے رہنے والوں میں کئی ایک کا کہنا ہے کہ اگر ٹیکسی ڈرائیور ان کو ان کی منزل پر خیریت سے پہنچا دیتے ہیں تو اس صورت میں بات چیت کی ضرورت اہم نہیں ہے۔