ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان تین روز تک انتخابی مہم سے دور رہنے کے بعد ہفتے کو پہلی مرتبہ منظر عام پر آگئے۔ انہیں معدے کے انفیکشن کی وجہ سے اپنی انتخابی سرگرمیاں روکنا پڑی تھیں۔
ہفتے کو 69 سالہ ایردوان نے استنبول ایوی ایشن فیسٹیول میں شرکت کی۔ اس موقع پر ان کے اتحادی آذربائیجان کے صدر الہام علیوف اور لبنان کے وزیرِاعظم عبدالحمید الدبیبہ بھی موجود تھے۔
ایردوان تین روز کے وقفے کے بعد عوام سے خطاب کرتے ہوئے صحت مند نظر آئے۔ انہوں نے ہاتھ میں مائیکروفون پکڑا ہوا تھا اور وہ زلزلہ متاثرین کی مدد کے لیے کی گئی حکومتی کوششوں کے بارے میں آگاہ کر رہے تھے۔
ترکیہ میں دو دہائیوں سے اقتدار میں رہنے والے رجب طیب ایردوان کی منگل کو ایک ٹی وی انٹرویو کے درمیان طبیعت خراب ہوگئی تھی۔
ترکیہ کے وزیرِ صحت فرحتین کجا نے کہا کہ ایردوان کو معدے اور آنتوں کی سوزش کا سامنا ہے۔ ان کے بقول یہ ہاضمے کا مسئلہ ہے جس کا آسانی سے علاج ہوجاتا ہے اور یہ عام طور پر چند دن میں ٹھیک ہوجاتا ہے۔
مگر ایردوان کی طبیعت کی خرابی نے ایردوان کی 14 مئی کو شیڈول الیکشن کے لیے ان کی سرگرمیوں کو متاثر کیا ہے۔
ترکیہ میں 14 مئی کو صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ہو رہے ہیں۔ بعض مبصرین کے خیال میں ایردوان کو اپنے دو دہائیوں کے اقتدار کو جاری رکھنے میں سب سے سخت چیلنج کا سامنا ہے کیوں کہ ترکیہ کی اپوزیشن جماعتیں ایردوان کے خلاف متحد ہوگئی ہیں اور کیمائل کرچدارولو اپوزیشن کے متفقہ امیدوار ہیں۔
ترکیہ میں کئی سروے ایردوان کی مقبولیت کو ان کے حریف کے مقابلے میں کم دکھاتے ہیں۔ سروے نتائج کے مطابق ترکیہ میں جدید ادوار کےسب سے اہم انتخابات میں سیکولر حریف کیمائل کرچدارولو ان سے آگے ہیں۔
اسی طرح ایک انتہائی قوم پرست گروپ کے ساتھ اتحاد کے ذریعے ایردوان کی پارٹی کا پارلیمنٹ پر کنٹرول بھی خطرے میں ہے۔
مگر زیادہ تر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایردوان انتخابی مہم کے ذریعے نتائج کو تبدیل کرسکتے ہیں۔
کیمائل کرچدارولو نے ایک طرح کا وسیع اتحاد قائم کیا ہے جسے ایردوان نے 20 برسوں میں تیار کرنے میں مہارت حاصل کی تھی۔ اپوزیشن اتحاد میں کچھ ایردوان کے سابق اتحادی، لبرلز، اسلام پسند اور قوم پرستوں سمیت کرد بھی شامل ہیں۔
البتہ ایردوان اپوزیشن پر تنقید کرتے ہیں اور ہفتے کو بھی انہوں نے حزب اختلاف کے ارکان کو مغرب 'ایجنٹس' سے تشبیہ دی جو ترکیہ کو کمزور کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
انہوں نے اپنے مخالفین کو کہا کہ حالیہ دنوں میں ان لوگوں نے جو تضحیک آمیز بیان دیے اس سے وہ اپنی نفرت اور رنجش ظاہر کر رہے ہیں۔ لیکن ان کے بقول اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔