امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے کہا ہے کہ یہ بات وثوق کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی کہ افغانستان سے فوجی انخلا کا آغاز ہوچکا ہے۔ تاہم انھوں نے بتایا کہ امریکہ طالبان امن سمجھوتے کے بعد 10 دنوں کے اندر انخلا شروع ہوگا۔ اس سمجھوتے پر ہفتے کو دستخط کیے گئے تھے۔
پینٹاگان میں منگل کو نیوز کانفرنس کرتے ہوئے مارک ایسپر نے کہا کہ اگر مجھے صحیح طور پر یاد ہے تو سمجھوتے میں کہا گیا ہے کہ 135 دنوں کے دوران فوجی تعیناتی کم ہوکر 8600 رہ جائے گی۔ اور یہ کہ انخلا 10 روز کے اندر شروع ہوجائے گا۔‘‘
وزیر دفاع نے کہا کہ ’’میں بہت بار کہہ چکا ہوں کہ 8600 کی فوج کے ساتھ ہم ضرورت پڑنے پر تمام ضروری مشن کرسکتے ہیں۔‘‘ افغانستان میں اس وقت تقریباً 13000 امریکی فوجی تعینات ہیں۔
ایسپر نے کہا کہ افغانستان میں امن لانے کے لیے مشترکہ اعلامیے میں افغان حکومت کے ساتھ امریکہ کی شراکت کا اعادہ کیا گیا ہے۔ یہ بات افغانستان کی لڑائی کے خاتمے کے لیے درکار سیاسی حل کے لیے لازم ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ہم غور سے اس بات کا جائزہ لیں گے کہ طالبان اپنی یقینی دہانیوں کی پاسداری کرتے ہیں یا نہیں۔
ادھر افغان صدر اشرف غنی نے طالبان سے سوال کیا ہے کہ ان کا گروپ پاکستان میں اپنے ٹھکانے کب بند کرے گا۔
پیر کو صوبہ ننگرہار کے صدر مقام جلال آباد میں قبائلی زعما کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اشرف غنی نے کہا کہ امن مذاکرات کے دوران وہ عوام کے حقوق پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔
افغان صدر نے کہا کہ ’’مذاکرات کی میز پر سب کچھ ایک فریق کے لیے نہیں کیا جاتا۔ قیدیوں کے بارے میں بات کی جائے گی لیکن دوسری شرائط پر بھی نظر رہے گی۔ مثلاً آپ پاکستان سے کب رخصت ہوں گے؟‘‘
انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ کابل میں ہونے والے مذاکرات کے لیے مذاکرات کار کونسل کا بورڈ تشکیل دیا جائے گا۔
تاہم انھوں نے کہا کہ امن مذاکرات کاروں کی ٹیم کے اختیارات محدود ہوں گے، کیونکہ انتخابی عرصہ مکمل ہو چکا ہے اور یہ وقت قومی وحدت کا ہے۔
اشرف غنی نے کہا کہ اگلی کابینہ سیاسی بنیادوں پر تشکیل دی جائے گی اور حکومت سب کی شمولیت کے ساتھ تشکیل دی جائے گی۔ لیکن انھوں نے کہا کہ تکنیکی کام معاون وزرا اور آزاد تنظیموں کے سربراہان کا ذمہ ہوگا اور چند صوبائی گورنروں کے اختیارات تبدیل ہوں گے۔۔