طالبان نے افغان سیکیورٹی فورسز پر ایک مرتبہ پھر حملے شروع کر دیے ہیں۔ طالبان رہنماؤں نے اپنے جنگجوؤں کو حکم دیا ہے کہ وہ افغان آرمی اور پولیس فورسز کو نشانہ بنانا شروع کر دیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق امریکا اور طالبان کے درمیان 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے امن معاہدے سے قبل امریکہ، طالبان اور افغان فورسز نے ایک ہفتے کے لیے تشدد میں کمی پر اتفاق کیا تھا جس کی مدت ختم ہونے کے بعد طالبان نے افغان سیکیورٹی فورسز پر ایک مرتبہ پھر حملے شروع کر دیے ہیں۔
افغانستان کے جنوبی صوبے قندھار کو طالبان کا مرکز سمجھا جاتا ہے، جس کے کم از کم دو اضلاع میں پیر کو طالبان اور افغان فورسز کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔
مقامی پولیس چیف سلطان محمد حکیمی نے 'اے ایف پی' کو بتایا ہے کہ طالبان نے پنجواہی اور میوند کے علاقوں میں اُن کی پانچ پوسٹوں پر حملے کیے اور یہ لڑائی اب بھی جاری ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ عارضی جنگ بندی کی مدت ختم ہونے کے بعد اُن کے آپریشنز معمول کے مطابق جاری رہیں گے۔
طالبان ترجمان نے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ امریکہ سے ہونے والے امن معاہدے کے تحت ان کے مجاہدین غیر ملکی فورسز پر حملے نہیں کریں گے لیکن افغان حکومتی فورسز کے خلاف اُن کی کارروائیاں جاری رہیں گی۔
اے ایف پی کے مطابق پولیس کی چوکیوں کو نشانہ بنانے کے بعد طالبان نے شمال مغربی صوبے بادغیس میں افغان آرمی کی چیک پوسٹ پر بھی حملہ کیا جس کے نتیجے میں ایک اہلکار ہلاک ہو گیا۔ آرمی کے مقامی کمانڈر نے اہلکار کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
افغان صدر اشرف غنی نے اتوار کو کہا تھا افغان حکام اور طالبان کے درمیان جب تک مذاکرات شروع نہیں ہو جاتے اس وقت تک جنگ بندی جزوی طور پر جاری رہے گی۔
اس سے قبل اشرف غنی نے امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے میں شامل اس شق پر اعتراض اٹھایا تھا جس کے مطابق ایک ہزار افغان قیدیوں کے بدلے 5000 طالبان قیدیوں کو رہائی ملنی تھی۔
تاہم اشرف غنی نے امن معاہدے میں قیدیوں کی رہائی کا معاملہ شامل کرنے پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے قیدیوں کی رہائی کو افغانستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ قیدیوں کی رہائی تیکنیکی طور پر ممکن نہیں ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے مطابق آئندہ 14 ماہ میں امریکہ افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کرے گا اور ابتدائی 135 روز کے دوران امریکہ کے 8600 فوجی واپس چلے جائیں گے۔ اس دوران طالبان غیر ملکی افواج کو نشانہ نہیں بنائیں گے۔
امن معاہدے کے تحت 10 مارچ سے بین الافغان مذاکرات ہونا ہیں جس میں طالبان اور افغان سیاست دانوں کے درمیان حکومت سازی، نئے قانون سمیت مختلف امور پر مذاکرات ہونا ہیں۔
امریکی فوج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملے کا کہنا ہے کہ طالبان کوئی ایک گروپ نہیں بلکہ افغانستان میں بہت سے دہشت گرد گروپس سرگرم ہیں۔ اگر یہ تصور کیا جائے کہ فوری طور پر تشدد کا خاتمہ ہو تو یہ فی الحال ممکن نہیں ہے۔