رسائی کے لنکس

یورپی رہنما اقتصادی مسائل کا حل تلاش کرنے میں سرگرداں


یورپی رہنما اقتصادی مسائل کا حل تلاش کرنے میں سرگرداں
یورپی رہنما اقتصادی مسائل کا حل تلاش کرنے میں سرگرداں

توقع ہے کہ یورپ میں یورو زون کے ملکوں کے لیڈر جمعے کے روز ایک اور ہنگامی سربراہ اجلاس منعقد کریں گے ۔ ان ملکوں میں اقتصادی حالات خراب ہیں، اور امریکہ میں قرض کے بڑھتے ہوئے بوجھ کے مسائل سے، اقتصادی غیر یقینی کی کیفیت میں اضافہ ہو رہا ہے ۔

یورو کرنسی کے 17 ملکوں کے زون کے لیے مزید بری خبر آئی ہے ۔ آئر لینڈ نے جو قرضے لیے ہوئے ہیں، اس ہفتے، Moody کی ریٹنگ ایجنسی نے انہیں junk کا درجہ دے دیا ہے یعنی ایسے قرض یا بانڈز جن کے سود اور اصل رقم کی ادائیگی کا امکان بہت کم ہے۔ گذشتہ ہفتے ایسا ہی اقدام پرتگال کے بارے میں کیا گیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ، یورو زون کے ایک اور رکن یونان کی طرح ، ان دونوں ملکوں کو بھی دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے دوسری بار بھاری مالی امداد کی ضرورت ہوگی۔

منگل کے روز، اسپین میں تقریر کرتے ہوئے یورپی یونین کے صدر ہرمن وین روم پائے نے منڈیوں کے اضطراب کو کم کرنے اور انہیں پُر سکون بنانے کی کوشش کی۔’’قرض کی منڈیوں میں آج کل جو کشیدگی ہے، میں اس سے بخوبی واقف ہوں ۔ لیکن میں صاف طور سے بتانا چاہتا ہوں کہ اعلیٰ ترین سطح پر ہم نے یہ عزم کیا ہوا ہے کہ یورو کے علاقے میں مالیاتی استحکام کی حفاظت کے لیئے جو کچھ ضروری ہوا، کیا جائے گا۔ لیڈروں کو اپنے ملک کے سیاسی ایجنڈے سے بالا تر ہو کر سوچنا چاہیئے، اور وہ ایسا ہی کریں گے۔‘‘

لیکن اس ہفتے کے شروع میں، یورپ کے وزرائے خزانہ اپنی میٹنگ میں کسی واضح لائحہ عمل پر متفق نہیں ہو سکے۔ یہ کام یورپی لیڈروں پر چھوڑ دیا گیا ہے، اگر وہ جمعے کے روز ہنگامی مذاکرات کرنے کے لیے جمع ہوئے ۔

اصل سوال یہ ہے کہ یونان کو ایک بار پھر دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے ، پرائیویٹ سیکٹر کو کتنا پیسہ دینا چاہیئے، اور کیا یورپی یونین کے بیل آؤٹ فنڈ کومکمل طور سے اوور ہال کرنا چاہیئے تا کہ وہ زیادہ لچکدار ہو جائے۔

ڈوئچے بینک کے گلیس موئیک کہتے ہیں کہ پرائیویٹ سیکٹر کی شمولیت بڑی حد تک سیاسی معاملہ ہے۔’’بنیادی خیال یہ ہے کہ ، خاص طور سے یورو زون کے ملکوں میں، مالیاتی بحران سے نکلنے کے لیئے، سارا بوجھ صرف ان لوگوں پر نہیں ڈالنا چاہیئے جو ٹیکس ادا کرتے ہیں۔‘‘

یورپی بنکوں کے اسٹرس ٹیسٹس کے نتائج اس ہفتے آنے والے ہیں۔ ان نتائج سے پتہ چلے گا کہ بنکوں میں مالیاتی بحران کو روکنے کی کتنی صلاحیت موجود ہے، اور وہ کس حد تک بیل آؤٹ میں مدد دے سکتے ہیں۔ اگرچہ اس کا امکان بہت کم ہے، لیکن یہ تشویش بہر حال موجود ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ امریکہ اپنے قرض کی ادائیگی نہ کر پائے۔ امریکہ کے سینٹرل بنک کے سربراہ بین برنانک نے انتباہ کیا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو اس سے دنیا میں بہت بڑا بحران شروع ہو جائے گا۔

ڈوئچے بینک کے گلیس موئیک کہتے ہیں’’امریکہ میں قرض کی حد بڑھانے کے سلسلے میں جو جھگڑا چل رہا ہے، اس سے کوئی مدد نہیں مل رہی ہے۔ اس سے صورت حال میں جو پہلے ہی بہت پیچیدہ اور مشکل ہے، تشویش اور پریشانی میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘‘

بروجل تھنک ٹینک کے محقق بینیڈکٹ مارزینوٹو کہتے ہیں کہ فوری طور پر زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ یورپی یونین کی بڑی بڑی معیشتوں والے ملک، یورو زون کے قرض کے بحران کا حصہ بن جائیں گے ۔ اٹلی اور اسپین کی معیشتوں کے بارے میں تشویش پیدا ہوئی تو منڈیوں میں حصص کی قیمتیں تیزی سے گِر گئیں۔

ان کا کہنا ہے’’ حالات یقیناً خراب ہوئے ہیں کیوں کہ مالیاتی منڈیاں اٹلی اور اسپین جیسی بڑی مارکیٹوں پر حملے کر رہی ہیں۔ مجھے زیادہ فکر ان دو بڑے ملکوں کی ہے، آئر لینڈ کی اتنی فکر نہیں کیوں کہ وہاں تو جو کچھ ہوا وہ نا گزیر تھا، اگر آپ یہ سوچیں کہ یہ سلسلہ یونان سے شروع ہوا تھا۔‘‘

اٹلی کے وزیرِ اعظم سلوایو برلوسکونی نے عہد کیا ہے کہ وہ تیزی سے ایک متنازع بل منظور کرانے کی کوشش کریں گے جس کے تحت سرکاری اخراجات کم کیے گئے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا ابتدائی رد عمل مثبت ہے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ یورپی یونین کو یورو زون کے لیے ایک طویل المدت اسٹریٹجی بھی وضع کرنی چاہیئے۔

XS
SM
MD
LG