رسائی کے لنکس

اخراجات میں کمی کے باوجود یونان کو مشکلات کا سامنا


اخراجات میں کمی کے باوجود یونان کو مشکلات کا سامنا
اخراجات میں کمی کے باوجود یونان کو مشکلات کا سامنا

یونان کے سیاست دانوں نے حکومت کے اخراجات میں 40 ارب ڈالر کی کٹوتی کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ مالی تباہی سے بچنے اور بین الاقوامی قرضے دینے کے لیے یونان پر یہ شرط عائد کی گَئی تھی۔ لیکن دارالحکومت ایتھنز میں احتجاج اور مظاہرے ختم نہیں ہوئے ہیں۔

جمہوریت کی ابتدا یونان میں ہوئی تھی، اور بہت سے لوگ اب بھی اسے مغربی تہذیب کا گہوارہ سمجھتے ہیں۔ لیکن 2011ء میں یونان کی پارلیمنٹ کی حفاظت مسلح پولیس کر رہی ہے کیوں کہ شہریوں کے ایک دستے نے اسے گھیر رکھا ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کی آواز فراموش کر دی گئی ہے۔

اس بحران کی بنیادی وجہ پیسہ ہے۔ دیکھنے میں ایتھنز یورپ کا ایک ترقی یافتہ شہر ہے جہاں جدید دور کی تمام آسائشیں موجود ہیں۔ لیکن یہ سب قرض لے کر تعمیر کیا گیا ہے۔

اب برسوں تک قرضے لینے کے بعد، یونان کی حکومت کو بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بجٹ کا خسارہ اور اس کے ساتھ ہی بین الاقوامی برادری کا دباؤ بہت بڑھ گیا ہے۔ حکومت ٹیکس بڑھانے اور اخراجات کم کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ بیشتر یونانیوں کے لیے یہ بہت بری خبر ہے۔ کاروباری حالات بہت زیادہ خراب ہیں اور غربت انتہا کو پہنچ چکی ہے۔

یہاں بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ٹیکسوں میں اضافے اور سرکاری اخراجات میں کمی کے اقدامات سے بہت سی زندگیاں تباہ ہو رہی ہیں۔

یونان کے روزنامے Kathimerini سے وابستہ صحافی Babis Papadimitriou کہتے ہیں کہ بعض یونانیوں کا خیال ہے کہ اگر یونان اپنے قرضوں کی بروقت ادائیگی نہ کرے اور یورو زون سے نکل جائے تو یہ اس کے حق میں بہتر ہو گا۔

’’وہی لوگ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت نے اخراجات کم کرنے کے جو اقدامات کیے ہیں وہ بہت سخت ہیں، وہی لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر اہم یورو زون سے نکل جائیں تو ہمیں کفایت شعاری کے اتنے سخت اقدامات کی ضرورت نہیں پڑے گی۔‘‘

احتجاج کرنے والے بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ سرکاری پالیسی کا اصل مقصد یونان کے شہریوں کے حقوق کی حفاظت اور ان کی فلاح و بہبود نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ان کے وزیرِ اعظم نے جو فیصلے کیے ہیں وہ یورپ کے مالدار ملکوں سمیت، عالمی طاقتوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے کیے ہیں جب کہ ان کی قیمت یونان کے لوگوں کو ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ احتجاج کرنے والے بعض لوگوں نے اس رویے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’یہ عالمی مالیاتی حکومت کا کھیل ہے۔ یہ لوگ عوام کو دبانا چاہتے ہیں، کسی قسم کی مزاحمت پسند نہیں کرتے۔ لہٰذا ہمیں خود اپنے حق کے لیے جنگ کرنی ہے۔‘‘

ایک خاتون کا کہنا تھا ’’مجھے ان کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں خود کو یونانی محسوس کرنا چاہتی ہوں۔ لیکن میں یونانی نہیں ہوں۔ میں جرمن ہوں، میں امریکی ہوں۔ معلوم نہیں میں کیا ہوں۔‘‘

لیکن احتجاج کے ہنگاموں سے ہٹ کر، بہت سے یونانیوں کا خیال ہے کہ اخراجات کم کرنے اور ٹیکس بڑھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ایک صاحب کہتے ہیں’’میرے خیال میں یہ پالیسیاں یورپی یونین کے ساتھ مشترکہ موقف کی تلاش میں ایک اچھا قدم ہیں۔ میرے خیال میں یونان کے سب لوگوں کا مقصد یہی ہونا چاہیئے۔ میرے خیال میں آج کل کوئی ملک، خاص طور سے یونان کے سائز کا ملک، الگ تھلگ نہیں رہ سکتا۔‘‘

تجزیہ کار ونیسا روزی کہتی ہیں کہ یہ یونان کے سیاست دانوں کا کام ہے کہ وہ یورپی ڈکٹیٹرشپ کا تاثر ختم کریں۔ ’’اصل مسئلہ یونان کی داخلی صورتِ حال کا ہے ۔ یونان کی آبادی اور اس کے سیاست دانوں کے درمیان رابطے کی کمی ہے جس کی وجہ سے جو حل پیش کیے جاتے ہیں ان میں پیشرفت میں دقت پیش آتی ہے۔‘‘

اخراجات میں کمی کے باوجود یونان کو مشکلات کا سامنا
اخراجات میں کمی کے باوجود یونان کو مشکلات کا سامنا

وہ کہتی ہیں کہ یونان کا مستقبل اور یورو زون میں اس کا مقام، یونان کے ہاتھ میں ہے، لیکن اس کی گرفت کمزور ہو رہی ہے۔ سیاستدانوں کو چاہیئے کہ وہ لوگوں کی ضرورتوں اور عالمی شراکت داروں کے مطالبات کے درمیان توازن پیدا کریں۔ ’’’میں نہیں سمجھتی کہ یورو زون میں ایسی کوئی خواہش ہے کہ رکن ممالک اسے چھوڑیں۔ لیکن حالات ایسے ہیں جن میں مزید مدد دینا بہت مشکل ہے۔ لہٰذا ہمیں اس معاملے کے دونوں رُخ دیکھنے چاہئیں اور کوئی ایسا حل نکالنا چاہیئے جو سب کے لیے قابلِ قبول ہو۔‘‘

اور ایسے حالات میں جب یونان کے دارالحکومت میں سڑکوں پر جھڑپیں جاری ہیں، جب تک کوئی مصالحت نہ ہو، یہ بات واضح نہیں ہے کہ حکومت اپنا اختیار قائم رکھ سکتی ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کر سکی تو ممکن ہے کہ یونان یورو زون کی رکنیت کو خیر باد کہنے پر مجبور ہو جائے، چاہے وہ ایسا کرنا چاہے یہ نہ چاہے۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG