واشنگٹن —
الجزائر کی ایک دور دراز گیس فیلڈ میں پھنسے ہوئے ان درجنوں ملکی و غیر ملکی کارکنوں کی رہائی کے لیے آپریشن جاری ہے جنہیں مسلمان جنگجووں نے یرغمال بنا لیا تھا۔ اور اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے الجزائر کی حکومت کی جانب سے کیے گئے اقدامات پر یورپی ممالک اور دیگر ملکوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
تاہم اس حملے کے نتیجے میں خطے میں غیرملکی املاک یا سرمایہ کاری کے لیے ناکافی سیکورٹی کے خدشات بھی پیدا ہوئے ہیں۔
برطانوی وزیر ِ اعظم ڈیوڈ کیمرون نے جمعہ کو ایک اہم تقریر موخر کرکے اس واقعے سے عہدہ برا ہونے کو اہمیت دی جس میں درجنوں غیر ملکیوں کو یرغمال بنالیا گیا۔ انہوں نے اس بارے میں پارلیمنٹ کو بریف کرنے کے ساتھ ساتھ وزیروں کے ساتھ ہنگامی مشاورتی میٹنگ بھی کی۔ ان کا کہنا تھا ، ’’ میں نے برطانوی تکنیکی اور انٹیلیجنس سے متعلق مدد دینے کی پیشکش کی تھی۔ جس میں اس قسم کی صورتحال میں یرغمال بنانے کے ساتھ مذاکرات کے ماہرین بھی شامل تھے۔ تاکہ اس معاملے کا کوئی کامیاب حل نکالا جا سکے۔ اور میں نے زور دیا ہے کہ ہم اور دیگر متاثرہ ملکوں کو کسی بھی قسم کی کارروائی سے پہلے اعتماد میں لیا جائے‘‘۔
صورتحال کا جائزہ لینے والے ماہرین کے مطابق یورپی ممالک کی جانب سے آنے والے سفارتی بیانات میں غصہ محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اور جس انداز میں الجزائر اس صورتحال سے عہدہ برا ہو رہا ہے، وہ اس سے خوش نہیں دکھائی دیتے۔
گراہم ہینڈ الجزائر کے لیے سابقہ برطانوی سفیر ہیں۔ ان کے مطابق، ’’ میرے خیال میں انہوں نے ہمیں مایوس کیا ہے۔ لیکن الجزائر کی جانب سے یہ کوئی غیر متوقع طرز ِ عمل نہیں ہے۔ دراصل الجزائر کے لوگ مغرور ہیں، خودمختار ہیں اور وہ حالات سے اپنے انداز میں نمٹنا چاہتے ہیں‘‘۔
گراہم ہینڈ کا کہنا ہے کہ اس حملے سے الجزائر میں اسلامی شدت پسندی کا نیا خطرہ ابھر کر سامنے آیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ وہاں پر تیل اور گیس کی تنصیبات پر حملہ ہو سکتا ہے۔ اصل خدشہ یہ ہے کہ اگر یہ واقعہ کسی نئے رجحان کا آغاز ہے تو پھر الجزائر کو مستقبل میں بڑے مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے‘‘۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال ان غیر ملکی کمپنیوں کے لیے بھی مسائل کا سبب بن سکتی ہے جو اس خطے میں لاکھوں ڈالر سے سرمایہ کاری کرتے ہیں۔
تیل کی بہت بڑی برطانوی کمپنی بی پی نے، جو اس گیس کمپلیکس میں کو آپریٹر ہے، الجزائر سے اپنا غیر ضروری عملہ واپس بلانا شروع کر دیا ہے۔
عالمی سیکورٹی کے مشیر ڈیوڈ روبنز کا کہنا ہے کہ مالی میں فرانسیسی مداخلت، جس کے بعد حملہ آوروں کے بقول انہوں نے اپنی کارروائیوں کو تیز کر دیا تھا ۔۔۔ اس سے خطے میں خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے۔ ان کے الفاظ میں، ’’میرے خیال میں گیس فیلڈ پر اس طرز کے حملے کا امکان موجود تھا‘‘۔
سابق سفیر گراہم ہینڈ کہتے ہیں کہ یہ افریقی خطے اور یورپ کے لیے ایک نازک وقت ہے۔ انکے مطابق ’’لیبیا مشکلات کا شکار ہے۔ تیونس کی صورتحال پر بھی سوالیہ نشان موجود ہیں۔ مالی کی صورتحال ہمارے سامنے ہے اور اب الجزائر میں بھی مسائل کا سامنا ہے۔ ہم اس خطے کی صورتحال سے منہ نہیں موڑ سکتے کیونکہ یہ یورپ سے بہت قریب ہے"۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اسلامی شدت پسندی بحیرہ روم کے اُس پار قدم جما رہی ہے۔ اور یہ مالی میں فرانسیسی مداخلت کے خلاف مزاحمت کر سکتی ہے۔
اس حوالے سے مزید جاننے کے لیے سنئیے مدیحہ انور کی آڈیو رپورٹ۔
تاہم اس حملے کے نتیجے میں خطے میں غیرملکی املاک یا سرمایہ کاری کے لیے ناکافی سیکورٹی کے خدشات بھی پیدا ہوئے ہیں۔
برطانوی وزیر ِ اعظم ڈیوڈ کیمرون نے جمعہ کو ایک اہم تقریر موخر کرکے اس واقعے سے عہدہ برا ہونے کو اہمیت دی جس میں درجنوں غیر ملکیوں کو یرغمال بنالیا گیا۔ انہوں نے اس بارے میں پارلیمنٹ کو بریف کرنے کے ساتھ ساتھ وزیروں کے ساتھ ہنگامی مشاورتی میٹنگ بھی کی۔ ان کا کہنا تھا ، ’’ میں نے برطانوی تکنیکی اور انٹیلیجنس سے متعلق مدد دینے کی پیشکش کی تھی۔ جس میں اس قسم کی صورتحال میں یرغمال بنانے کے ساتھ مذاکرات کے ماہرین بھی شامل تھے۔ تاکہ اس معاملے کا کوئی کامیاب حل نکالا جا سکے۔ اور میں نے زور دیا ہے کہ ہم اور دیگر متاثرہ ملکوں کو کسی بھی قسم کی کارروائی سے پہلے اعتماد میں لیا جائے‘‘۔
صورتحال کا جائزہ لینے والے ماہرین کے مطابق یورپی ممالک کی جانب سے آنے والے سفارتی بیانات میں غصہ محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اور جس انداز میں الجزائر اس صورتحال سے عہدہ برا ہو رہا ہے، وہ اس سے خوش نہیں دکھائی دیتے۔
گراہم ہینڈ الجزائر کے لیے سابقہ برطانوی سفیر ہیں۔ ان کے مطابق، ’’ میرے خیال میں انہوں نے ہمیں مایوس کیا ہے۔ لیکن الجزائر کی جانب سے یہ کوئی غیر متوقع طرز ِ عمل نہیں ہے۔ دراصل الجزائر کے لوگ مغرور ہیں، خودمختار ہیں اور وہ حالات سے اپنے انداز میں نمٹنا چاہتے ہیں‘‘۔
گراہم ہینڈ کا کہنا ہے کہ اس حملے سے الجزائر میں اسلامی شدت پسندی کا نیا خطرہ ابھر کر سامنے آیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ وہاں پر تیل اور گیس کی تنصیبات پر حملہ ہو سکتا ہے۔ اصل خدشہ یہ ہے کہ اگر یہ واقعہ کسی نئے رجحان کا آغاز ہے تو پھر الجزائر کو مستقبل میں بڑے مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے‘‘۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال ان غیر ملکی کمپنیوں کے لیے بھی مسائل کا سبب بن سکتی ہے جو اس خطے میں لاکھوں ڈالر سے سرمایہ کاری کرتے ہیں۔
تیل کی بہت بڑی برطانوی کمپنی بی پی نے، جو اس گیس کمپلیکس میں کو آپریٹر ہے، الجزائر سے اپنا غیر ضروری عملہ واپس بلانا شروع کر دیا ہے۔
عالمی سیکورٹی کے مشیر ڈیوڈ روبنز کا کہنا ہے کہ مالی میں فرانسیسی مداخلت، جس کے بعد حملہ آوروں کے بقول انہوں نے اپنی کارروائیوں کو تیز کر دیا تھا ۔۔۔ اس سے خطے میں خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے۔ ان کے الفاظ میں، ’’میرے خیال میں گیس فیلڈ پر اس طرز کے حملے کا امکان موجود تھا‘‘۔
سابق سفیر گراہم ہینڈ کہتے ہیں کہ یہ افریقی خطے اور یورپ کے لیے ایک نازک وقت ہے۔ انکے مطابق ’’لیبیا مشکلات کا شکار ہے۔ تیونس کی صورتحال پر بھی سوالیہ نشان موجود ہیں۔ مالی کی صورتحال ہمارے سامنے ہے اور اب الجزائر میں بھی مسائل کا سامنا ہے۔ ہم اس خطے کی صورتحال سے منہ نہیں موڑ سکتے کیونکہ یہ یورپ سے بہت قریب ہے"۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اسلامی شدت پسندی بحیرہ روم کے اُس پار قدم جما رہی ہے۔ اور یہ مالی میں فرانسیسی مداخلت کے خلاف مزاحمت کر سکتی ہے۔
اس حوالے سے مزید جاننے کے لیے سنئیے مدیحہ انور کی آڈیو رپورٹ۔