یورو کے بحران کی وجہ سے فرانس اور جرمنی کے درمیان دوستی کے بندھن مضبوط ہو گئے ہیں۔ لیکن گذشتہ سال جاپان میں جو نیوکلیئر حادثہ ہوا تھا، اس نے یورپ کے ان دو ہمسایہ ملکوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے ۔
فرانس کے صدر نکولس سارکوزی نیوکلیئر توانائی کے پُر جوش حامی ہیں۔ اپنی تقریروں میں انھوں نے کہا ہے کہ روزگار اور کم قیمت بجلی کی فراہمی کے لیے نیوکلیئر توانائی انتہائی اہم ہے ۔
فرانس کا شمار نیوکلیئر توانائی پیدا کرنے والے بہت بڑے ملکوں میں ہوتا ہے ۔ یہاں تقریباً تین چوتھائی بجلی نیوکلیئر توانائی سے حاصل کی جاتی ہے۔ فرانس نیوکلیئر توانائی اور ٹیکنالوجی بر آمد بھی کرتا ہے ۔ فرانسیسی کمپنیاں برطانیہ میں نیوکلیئر ری ایکٹر تعمیر کریں گی، اوروہ جنوبی افریقہ میں بھی نیوکلیئر ری ایکٹر بنانے کی امید وار ہیں۔
لیکن فوکوشیما کے حادثے کے بعد، جرمنی کی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ 2022 تک اپنے تمام نیوکلیئر ری ایکٹرز بند کر دے گی، بجائے اس کے کہ یہ کام بتدریج کیا جائے ۔
جرمنی میں یہ اقدام نیوکلیئر توانائی کے خلاف بہت بڑے احتجاجی مظاہروں کے بعد کیا گیا۔ فرانس میں ایسے احتجاج نہیں ہوئے۔ لوئس اکاوری پیرس میں قائم نیوکلیئر انرجی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’میرے خیال میں، جرمنی اور فرانس میں فرق یہ ہے کہ ان ملکوں میں نیوکلیئر توانائی کے بارے میں معاشرے کا رد عمل مختلف ہے ۔ گذشتہ 20 سے 25 برسوں کے دوران، جرمن معاشرے میں نیوکلیئر طاقت کی پوزیشن اچھی نہیں رہی ہے ۔ تا ہم، فرانس میں، معاشرے میں عام خیال یہ ہے کہ نیوکلیئر توانائی فرانس کے بہترین مفاد میں ہے ۔‘‘
یہ اختلافات یورپ کے دوسرے ملکوں میں بھی نظر آتے ہیں۔ اکاوری کہتے ہیں’’جرمنی، اٹلی، بلجیئم، سوئٹزرلینڈ کی طرح چند ملک ایسے ہیں جو واضح طور پر کہہ رہے ہیں کہ وہ ایک نہ ایک دن اپنے نیوکلیئر پاور پلانٹس بند کر دیں گے اور نئے پلانٹس تعمیر نہیں کریں گے ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی، بہت سے ایسے ملک موجود ہیں جنھوں نے کہا ہے کہ وہ موجودہ نیوکلیئر پاور پلانٹس کو چلاتے رہیں گے، اور مزید نئے پلانٹس تعمیر کریں گے۔‘‘
لیکن فرانس میں بھی، فوکوشیما کے حادثے کی وجہ سے نیوکلیئر توانائی کے بارے میں تشویش پیدا ہوئی ہے ۔ ٹاؤن ہال میٹنگوں میں، خاص طور سے آج کل، جب اپریل میں صدارتی انتخابات کی تیاریاں ہو رہی ہیں، اس بارے میں تشویش کا اظہار کیا گیا ہے ۔
مسٹر سارکوزی کے سب سے بڑے حریف، سوشلسٹ پارٹی کے امیدوار فرانکویس ہولانڈے چاہتے ہیں کہ نیوکلیئر توانائی پر فرانس کا انحصار کم کیا جائے، لیکن وہ اسے مکمل طور سے ختم کرنا نہیں چاہتے۔
لیکن گرین پیس کے یانیک رؤزیلیٹ کا خیال ہے کہ یہ نیوکلیئر توانائی کے استعمال کے خاتمے کی ابتدا ہے۔’’ میرے خیال میں لوگوں کے خیالات میں اہم تبدیلی آئی ہے ۔ وہ نیوکلیئر توانائی کا استعمال فوری طور پر ختم کرنے کے حق میں تو نہیں ہیں، لیکن یہ بات ظاہر ہے کہ لوگوں کی بہت بڑی اکثریت سمجھتی ہے کہ ہمیں اسے بتدریج ختم کر دینا چاہیئے ۔‘‘
دسمبر میں اس وقت بڑا ہنگامہ ہوا جب گرین پیس فرانس کے دو نیوکلیئر پاور اسٹیشنوں میں چوری چھپے داخل ہو گئی ۔ ان کا مقصد یہ بتانا تھا کہ دہشت گردوں کے لیے وہاں تک پہنچنا کتنا آسان ہے ۔ رؤزیلیٹ کہتے ہیں کہ مجموعی طور پر فرانسیسی ری ایکٹرز بہت زیادہ محفوظ نہیں ہیں۔’’
فرانس میں حفاظت کے بہت سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم ان مسائل سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔نہ ہی ری ایکٹرز ان سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
تا ہم، فرانس کی نیوکلیئر کمپنی اریوا کے مشیر برٹنڈ بار، اس خیال سے متفق نہیں۔ وہ کہتے ہیں’’میرے خیال میں فرانس میں لوگ پوری طرح محفوظ ہیں۔ لیکن بہر حال، دوسرے شعبوں کی طرح نیوکلیئر شعبے میں بھی تھوڑا بہت خطرہ تو موجود ہوتا ہے ۔ ایسی کوئی چیز نہیں ہوتی، جس میں کسی قسم کا کوئی خطرہ نہ ہو۔‘‘
بار کہتے ہیں کہ یورپی یونین کے نئے اسٹریس ٹیسٹوں سے یہ ری ایکٹرز اتفاقی حادثات سے بہتر طور سے نمٹ سکیں گے ۔ یہ ایسا دعویٰ ہے جسے نیوکلیئر توانائی کے ناقدین، جیسے رؤزیلیٹ مسترد کرتے ہیں۔
دونوں فریقوں میں نیوکلیئر توانائی سے بجلی پیدا کرنے کی لاگت کے بارے میں، اور مکمل طور سے قابلِ تجدید توانائی جیسے شمسی توانائی اور ہوا کی توانائی پر مکمل طور سے انحصار کرنے کے بارے میں بھی اختلاف ہے ۔ تا ہم، یہ بات یقینی ہے کہ فوکوشیما کے حادثے کے ایک سال بعد یورپ کے توانائی کے مسئلے میں، نیوکلیئر طاقت کا سوال اب بھی بہت اہم ہے۔