ایک سال قبل، 11مارچ کوجاپان میں ایک خوفناک زلزلہ اور سونامی آئی۔ وہاں سے خبریں بھیجنے کے لیے ’ وائس آف امریکہ ‘ کے شمال مشرقی علاقے سے متعلق نامہ نگار اسٹیو ہرمن آفت زدہ خطے میں پہنچے۔
وہ، اور’ دِی لاس اینجلس ٹائمز‘ کے جان گلیونا اُن پہلے صحافیوں میں سے تھے جو ’فوکوشیما-ون نیوکلیئر پلانٹ‘ کے دروازوں تک پہنچے جنھیں عام آدمی کے لیے بند کردیا گیا تھا۔ بعد کے ایام اور ہفتوں کے دوران ہرمن نےوہاں سےٹویٹر اور سوشل میڈیا کے ذریعے ویب، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے رپورٹنگ کی، اور دنیا بھر میں فوری، قابل اعتماد اور غیر جانبدار خبریں بھیجنےکی شہرت حاصل کی۔ اِس مضمون میں وہ واقع کی اہمیت اور گذشتہ برس سمندر کی گہرائیوں کی زمین میں آنے والے بھونچال کے باعث دیر تک باقی رہنے والے حقائق سے پردہ اٹھاتے ہیں۔
اِس بات کا اندازہ لگانا کہ جاپان میں 9.0درجے کے تباہ کُن زلزلے اور سونامی کےنتیجے میں کیا نقصانات ہوئے ایک مشکل امر ہے، اور پھر یہ کہ اُس وقت ٹوکیو کو خالی کرانے کا سوچا جارہا تھا جو کہ اور بھی مشکل بات تھی۔
بتایا جاتا رہا ہے کہ اِس قدرتی آفت کے نتیجےمیں مجموعی طور پر 20000افراد ہلاک ہوئے، جِس میں سے زیادہ تر سونامی کے باعث ہلاکتیں ہوئیں، ڈھائی لاکھ عمارتیں تباہ ہوئیں اور تقریباً 400000افرادبے گھر ہوئے۔
جانی نقصان کا المیہ دل جنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ کچھ خاندان ابھی تک اپنےپیارے بچوں کی لاشیں تلاش کر رہے ہیں۔ 1500سے زائد بچوں نے اپنے ماں باپ میں سے کم از کم ایک کو کھودیا ہے۔
اس قدرتی آفت کے نتیجے میں یکتا نوعیت کی تباہی کے مناظردیکھنے میں آئےجس کے باعث جاپان ملبے کا ایک ڈھیر بن گیا، جسے ’گاریکی‘ کا نام دیا گیا۔ اِس ملبے کا کیا کیا جائے؟ یہ ہے وہ سوال جس کا اب تک کوئی خاطر خواہ جواب سامنے نہیں آیا۔
تعمیرِ نو کا کچھ کام ہاتھ میں لیا جا چکا ہے، تاہم مایوسی کی خاص بات یہ ہےکہ بہت سارے لوگ ابھی تک عارضی عمارتوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔
کچھ ساحلی آبادیوں میں یہ تشویش بھی پائی جاتی ہے کہ ترک ِوطن کے باعث اُن کا نوجوان اُن کی آنکھوں سےاوجھل ہوتا جا رہا ہے، جو بات اِس قدرتی آفت سے پہلے بھی لاحق تھی۔ یہ آبادیاں شاید اِس صدمے سے کبھی بھی باہر نہیں آپائیں گی۔
فوکوشیما کے حصار میں رہنے والے لوگوں میں سے متعدد اپنے گھروں کو لوٹنے کے خواہشمند ہیں، لیکن زیریں ڈھانچے کی عدم دستیابی اور زہریلی تابکاری کے خدشات کے باعث وہ الگ تھلگ رہنے پر مجبور ہیں۔
تابکاری کی سطح کے بارے میں آگاہی فوکوشیما کے لوگوں کے لیے عام سی بات بن چکی ہے۔ حصار کے اندربند ہر ایک کمیونٹی تابکاری پر نظر رکھے ہوئے ہے، جِس کے لیے شمسی توانائی پر چلنے والی چوکیاں قائم کی گئی ہیں۔ اِس طرح ہر وقت اعداد و شمار جلی حروف میں نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
کچھ سائنس داں اور حکومتی اہل کار عوام کو یقین دلاتے نظر آتے ہیں کہ تابکاری کی سطح محفوظ حد کے اندر ہے، اِس حد تک کہ ناکارہ ہونے والے ’فوکوشیما ڈایچی نیوکلیئر پلانٹ ‘کے قریب کے علاقے تک کو بھی محفوظ بتایا جاتا ہے۔ تاہم، اِس آفت کے بعد اب جاپانی لوگ سرکاری اعداد و شمار پر اعتبار کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔