رسائی کے لنکس

امریکہ میں صدارتی انتخابی مہم اربوں ڈالر کا کھیل ہے


نومبر 2020 کے صدارتی انتخابات کے امیدوار صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سابق نائب صدر جو بائیڈن
نومبر 2020 کے صدارتی انتخابات کے امیدوار صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سابق نائب صدر جو بائیڈن

امریکہ میں الیکشن لڑنا سرمائے کا کھیل ہے، خاص طور پر صدارتی امیداورں کو تو اپنی انتخابی مہم پر کروڑوں ڈالر صرف کرنے پڑتے ہیں۔ یہ رقم چندوں کے ذریعے جمع کی جاتی ہے جس میں عام امریکی شہریوں سے لے کر بڑی بڑی کمپنیاں اور تجارتی ادارے بھی اپنے پسند کے امیدوار کے لیے دل کھول کر عطیات دیتے ہیں۔

کرونا وائرس کے بڑے پیمانے پر پھیلاؤ کی وجہ سے امریکہ میں صدارتی انتخابات کی صورت حال ایک دلچسپ مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔

نومبر میں ہونے والے انتخابات کے لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سابق نائب صدر جو بائیڈن میدان میں ہیں۔

دونوں امیدواروں کو اس وقت جو مشکل درپیش ہے، وہ یہ ہے کہ وہ روایتی جلسے اور انتخابی ریلیاں نہیں کر سکتے اور ووٹروں سے رابطے کا سب سے بڑا ذریعہ ڈیجیٹل میڈیا، پرنٹ میڈیا، ریڈیو اور ٹیلی وژن ہیں،جن پر انتخابی مہم چلانے کے لیے بڑے سرمائے کی ضرورت ہے۔

جون تک کی صورت حال یہ ہے کہ تین نومبر کو ہونے والے الیکشن میں اب تک جو عطیات اکھٹے ہوئے ہیں، ان کے مطابق ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن کو ڈونلڈ ٹرمپ پر 10 ملین ڈالر کی برتری حاصل تھی۔ یہ ان کا صدر ٹرمپ پر فنڈ ریزنگ کے سلسلے میں برتری کا مسلسل دوسرا مہینہ تھا۔

صدارتی انتخابات پر کتنی رقم خرچ ہوتی ہے؟

امریکہ میں اب صدارتی انتخابی مہم اب اربوں ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ اگر ماضی میں ہونے والے اخراجات پر نظر ڈالی جائی تو سن 2012 میں جب رونلڈ ریگن نے جمی کارٹر کو اور 2016 میں براک اوباما نے مٹ رومنی کو شکست دی تھی تو ان کی انتخابی مہمات کے اخراجات 1980 کے مقابلے میں کم ازکم ایک ہزار گنا زیادہ تھے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات امریکی تاریخ کے سب سے مہنگے الیکشن ثابت ہوں گے، جس کی بنیادی وجہ کرونا وائرس کا پھیلاؤ ہے اور صدارتی امیدواروں کو اپنے ووٹروں تک پہنچنے کے لیے ورچوئل ذرائع استعمال کرنے پڑ رہے ہیں۔

سینٹر فار ریسپانسو پالیٹکس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2008 کی انتخابی مہم میں مجموعی طور پر دو ارب 80 کروڑ ڈالر جب کہ 2016 کی مہم پر دو ارب 40 کروڑ ڈالر صرف ہوئے تھے۔

ماضی کی صدارتی انتخابی مہمات کے اخراجات

امریکہ کی پہلی صدارتی انتخابی مہم پر شاید ایک ڈالر بھی خرچ نہیں ہوا تھا۔ یہ الیکشن جارج واشنگٹن نے 1788 میں لڑا تھا۔ اس زمانے میں امریکہ کی آبادی کم تھی اور ذرائع ابلاغ بھی نہ ہونے کے برابر تھے ۔ لیکن آج تقریباً 15 کروڑ ووٹروں تک پہنچنے کے لیے مختلف قسم کے ذرائع استعمال کرنے پڑتے ہیں جن پر کثیر سرمایہ لگتا ہے۔

کیا سرمایہ کامیابی کا ضامن ہے؟

اگرچہ امریکہ میں صدارتی مہم کے دوران اربوں ڈالر صرف کیے جاتے ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ کثیر اخراجات کامیابی کی ضمانت نہیں ہوتے۔

مثال کے طور پر 2016 کے الیکشن میں ہلری کلنٹن نے ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں لاکھوں ڈالر زیادہ خرچ کیے تھے لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئیں۔

اسی طرح 1996 میں ری پبلیکن پارٹی کے باب ڈول بھاری اخراجات کے باوجود بل کلنٹن سے ہار گئے تھے۔ 1984 میں ڈیموکریٹ والٹر میڈیل نے رونلڈ ریگن کے مقابلے میں زیادہ رقم خرچ کی لیکن جیت نہیں سکے۔

جب ہم سن 2000 سے 2012 کی انتخابی مہمات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ جارج ڈبلیو بش اور براک اوباما نے اپنے مدمقابل صدارتی امیدواروں کے مقابلے میں زیادہ سرمایہ استعمال کیا اور دو دونوں ہی کامیاب ہوئے۔

گویا سرمایہ صرف صدارتی امیدوار کا پیغام ووٹروں تک پہنچانے کا ذریعہ بنتا ہے، جیت کا انحصار اس پر ہے کہ ووٹر ان کے پیغام کو قبول کرتے ہیں یا نہیں۔

نومبر 2020 کے انتخابی اخراجات

تین نومبر کے انتخابات کی مہم میں ڈیموکریٹ پارٹی کی جانب سے بھاری اخراجات کیے جا رہے ہیں۔ اگرچہ ٹام سٹیئر اور مائیکل بلوم برگ بائیڈن کے حق میں دست بردار ہو چکے ہیں لیکن انہوں نے کثیر سرمایہ صرف کیا۔

جوبائیڈن بھی بھاری اخراجات کر رہے ہیں کیونکہ کرونا وائرس کی وجہ سے وہ انتخابی ریلیاں نہیں کر رہے اور میڈیا کے ذریعے ووٹروں تک جا رہے ہیں۔ جب کہ صدر ٹرمپ محدود پیمانے پر جلسے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

جو بائیڈن کی انتخابی مہم میں سوشل میڈیا پر بھی بھاری رقوم خرچ ہو رہی ہیں جب کہ ان کے مدمقابل صدر ٹرمپ محض ٹویٹر پر اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں جس پر ان کا ایک ڈالر بھی خرچ نہیں ہو رہا۔

لیکن جیسے جیسے الیکشن کا دن قریب آتا جائے گا، دونوں جانب اخراجات اسی رفتار سے بڑھتے جائیں گے۔

XS
SM
MD
LG