اسلام آباد —
پاکستان میں اقتصادی ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے ساتھ قرض کے حالیہ معاہدے کی شرائط پر عمل درآمد سے حکومت کی مقبولیت پر منفی اثرات ہوئے ہیں اس لیے اُنھوں نے حکمرانوں کو اس پر نظرِ ثانی کا مشورہ دیا ہے۔
انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) ستمبر میں طے پائے معاہدے کے تحت آئندہ تین برسوں کے دوران پاکستان کو تقریباً 6.7 ارب ڈالر کا قرض فراہم کرے گا، مگر اِقساط کی شکل میں کی جانے والی ادائیگیاں معاشی اصلاحات پر عمل درآمد کے سہ ماہی جائزوں سے مشروط ہیں۔
آئی ایم ایف کا نمائندہ وفد پہلے سہ ماہی جائزے کے لیے ان دنوں پاکستان میں ہے، جہاں اس کے اراکین وزارتِ خزانہ کے حکام اور دیگر متعلقہ محکموں کے نمائندوں سے ملاقاتوں میں مصروف ہیں اور وہ اس جائزے کا عمل 7 نومبر تک مکمل کر لیں گے۔
حکام کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے تحت جن معاشی اصلاحات پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے اُن کا مقصد اعتماد سازی کے لیے پالیسیوں میں ضروری تبدیلیاں، مالی خسارے میں کمی اور روزگار کے مواقع میں اضافہ شامل ہیں۔
اقتصادی ماہرین کی رائے میں معیشت کی زبوں حالی کے باعث مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا آئی ایم ایف سے رجوع کرنا بظاہر مجبوری تھی، تاہم قرض کی بعض کٹِھن شرائط پر عمل درآمد حکومت کے لیے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔
ماہرِ معاشیات ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے معاہدے میں کمزویاں ہیں۔
’’یہ ایسا پروگرام ہے جو جمہوری حکومت کے لیے بہت مسائل پیدا کر دے گا۔ حکومتِ وقت کی مقبولیت چند مہینوں میں ہی کافی گر گئی ہے (لہذا) اگر ہم اس پروگرام میں بغیر کوئی تبدیلی کیے ہوئے مزید آگے بڑھے تو یہ حکومت کے لیے بہت زیادہ مسائل پیدا کرے گا۔ اس پروگرام کا جائزہ لینا چاہیئے اور یہ اچھا موقع ہے کیوں کہ آئی ایم ایف کا مشن پاکستان میں آیا ہوا ہے، ان سے بات چیت کرنی چاہیئے کہ آپ اس پروگرام پر نظرِ ثانی کریں۔‘‘
اشفاق حسن خان نے کہا کہ حکومت کی طرف سے اب تک کی گئی اصلاحات خصوصاً ایندھن، قدرتی گیس اور بجلی کے نرخوں پر دی جانے والی رعایت میں کمی کا مجموعی بوجھ غریب اور متوسَط طبقے پر پڑا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ معاشی صورت حال میں دیرپا بہتری کے لیے حکومت کو اپنی توجہ مراعات یافتہ طبقے پر مرکوز کرنی ہوگی۔
’’جو سب سے اہم کام کرنا ہے حکومتِ وقت کو (وہ یہ ہے) کہ امراء اور با اثر لوگوں کو ٹیکس کے نطام میں لائے اور جتنا وہ کماتے ہیں ان سے اتنا ہی ٹیکس وصول کیا جائے۔ یہی حل ہے، اس کے علاوہ کوئی حل نہیں۔‘‘
حسن عسکری رضوی سمیت متعدد تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اگر پاکستان معاشی اصلاحات میں ’’اطمینان بخش کارکردگی‘‘ نا دکھا سکا تو موجودہ قرض کی ادائیگی رک بھی سکتی ہے۔
’’انحصار اس بات پر ہے کہ کارکردگی کیا ہے۔ اس سے پچھلا معاہدہ بھی مکمل نہیں ہو سکا تھا اور یہ معاہدہ بھی راستے میں رک سکتا ہے۔‘‘
آئی ایم ایف کے وفد سے تاحال ہوئی بات چیت کی تفصیلات سے ذرائع ابلاغ کو آگاہ نہیں کیا گیا ہے، البتہ رواں ہفتے جاری ہونے والے سرکاری بیان میں کہا گیا تھا کہ وفد نے پہلی سہ ماہی میں پاکستان کی جانب سے کارکردگی کے معیار اور علامتی اہداف کے حصول کو سراہا۔
وزارتِ خزانہ کے حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ قرض کے حصول کے لیے کوئی بھی ایسی شرح قبول نہیں کی گئی جس سے عام پاکستانی کے مفاد کو نقصان پہنچتا ہو۔
انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) ستمبر میں طے پائے معاہدے کے تحت آئندہ تین برسوں کے دوران پاکستان کو تقریباً 6.7 ارب ڈالر کا قرض فراہم کرے گا، مگر اِقساط کی شکل میں کی جانے والی ادائیگیاں معاشی اصلاحات پر عمل درآمد کے سہ ماہی جائزوں سے مشروط ہیں۔
آئی ایم ایف کا نمائندہ وفد پہلے سہ ماہی جائزے کے لیے ان دنوں پاکستان میں ہے، جہاں اس کے اراکین وزارتِ خزانہ کے حکام اور دیگر متعلقہ محکموں کے نمائندوں سے ملاقاتوں میں مصروف ہیں اور وہ اس جائزے کا عمل 7 نومبر تک مکمل کر لیں گے۔
حکام کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے تحت جن معاشی اصلاحات پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے اُن کا مقصد اعتماد سازی کے لیے پالیسیوں میں ضروری تبدیلیاں، مالی خسارے میں کمی اور روزگار کے مواقع میں اضافہ شامل ہیں۔
اقتصادی ماہرین کی رائے میں معیشت کی زبوں حالی کے باعث مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا آئی ایم ایف سے رجوع کرنا بظاہر مجبوری تھی، تاہم قرض کی بعض کٹِھن شرائط پر عمل درآمد حکومت کے لیے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔
ماہرِ معاشیات ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے معاہدے میں کمزویاں ہیں۔
’’یہ ایسا پروگرام ہے جو جمہوری حکومت کے لیے بہت مسائل پیدا کر دے گا۔ حکومتِ وقت کی مقبولیت چند مہینوں میں ہی کافی گر گئی ہے (لہذا) اگر ہم اس پروگرام میں بغیر کوئی تبدیلی کیے ہوئے مزید آگے بڑھے تو یہ حکومت کے لیے بہت زیادہ مسائل پیدا کرے گا۔ اس پروگرام کا جائزہ لینا چاہیئے اور یہ اچھا موقع ہے کیوں کہ آئی ایم ایف کا مشن پاکستان میں آیا ہوا ہے، ان سے بات چیت کرنی چاہیئے کہ آپ اس پروگرام پر نظرِ ثانی کریں۔‘‘
اشفاق حسن خان نے کہا کہ حکومت کی طرف سے اب تک کی گئی اصلاحات خصوصاً ایندھن، قدرتی گیس اور بجلی کے نرخوں پر دی جانے والی رعایت میں کمی کا مجموعی بوجھ غریب اور متوسَط طبقے پر پڑا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ معاشی صورت حال میں دیرپا بہتری کے لیے حکومت کو اپنی توجہ مراعات یافتہ طبقے پر مرکوز کرنی ہوگی۔
’’جو سب سے اہم کام کرنا ہے حکومتِ وقت کو (وہ یہ ہے) کہ امراء اور با اثر لوگوں کو ٹیکس کے نطام میں لائے اور جتنا وہ کماتے ہیں ان سے اتنا ہی ٹیکس وصول کیا جائے۔ یہی حل ہے، اس کے علاوہ کوئی حل نہیں۔‘‘
حسن عسکری رضوی سمیت متعدد تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اگر پاکستان معاشی اصلاحات میں ’’اطمینان بخش کارکردگی‘‘ نا دکھا سکا تو موجودہ قرض کی ادائیگی رک بھی سکتی ہے۔
’’انحصار اس بات پر ہے کہ کارکردگی کیا ہے۔ اس سے پچھلا معاہدہ بھی مکمل نہیں ہو سکا تھا اور یہ معاہدہ بھی راستے میں رک سکتا ہے۔‘‘
آئی ایم ایف کے وفد سے تاحال ہوئی بات چیت کی تفصیلات سے ذرائع ابلاغ کو آگاہ نہیں کیا گیا ہے، البتہ رواں ہفتے جاری ہونے والے سرکاری بیان میں کہا گیا تھا کہ وفد نے پہلی سہ ماہی میں پاکستان کی جانب سے کارکردگی کے معیار اور علامتی اہداف کے حصول کو سراہا۔
وزارتِ خزانہ کے حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ قرض کے حصول کے لیے کوئی بھی ایسی شرح قبول نہیں کی گئی جس سے عام پاکستانی کے مفاد کو نقصان پہنچتا ہو۔