رسائی کے لنکس

ماہرین ترک فوج میں بڑھتی بے چینی سے چوکنہ کرتے رہے: رپورٹ


تجزیہ کار، افضل اشرف نے کہا ہے کہ وہ حیران ہیں کہ فوجی اہل کار حکومت کے لیے کس سطح کی مخاصمت کے جذبات رکھتے ہیں۔ اردوان کی جانب سے ’’مطلق العنانیت کا انداز اپنانے پر‘‘، اُنھوں نے پریشانی کا اظہار کیا، جس کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ ’’وہ ترکی میں اسلام کے نفاذ کی جانب بڑھ رہے ہیں‘‘

کئی ہفتوں سے ترکی کی سیکولر فوج اور صدر رجب طیب اردوان کی اسلام نواز حکومت کے درمیان تناؤ حد سے بڑھ چکا تھا۔ سیاست دانوں اور جنرلوں کے مابین نیم سرکاری سطح پر نااتفاقی انتہا پر تھی، خاص طور پر شام کی پالیسی پر، جو بات باربار سامنے آئی۔

فوجی بریفنگ اور سرکاری بیانات میں تضادات رفتہ رفتہ عام ہونے لگے تھے۔

حالیہ ہفتوں کے دوران کچھ تجزیہ کاروں نے اس اندیشے کا اظہار کیا تھا کہ تختہ الٹنے کی کوششوں کا امکان ہے، ایسے میں جب فوج کے حلقوں میں ترکی میں حالیہ مہلک دہشت گرد حملوں کے سلسلے کے بارے میں تشویش بڑھ رہی تھی اور حکومت کی جانب سے جنوب مشرقی ترکی میں کرد اقلیت کے خلاف غیر اعلانیہ لڑائی جاری رہی ہے اور ذرائع ابلاغ اور عدالت پر کنٹرول کو مضبوط کرنے کی اردوان کی کوششیں جاری رہی ہیں۔

لندن میں قائم تھنک ٹینک، ’رویل یونائٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ‘ سے منسلک افضل اشرف نے کہا ہے کہ وہ حیران ہیں کہ فوجی اہل کار حکومت کے لیے کس سطح کی مخاصمت کے جذبات رکھتے ہیں۔ اردوان کی جانب سے مطلق العنانیت کا انداز اپنانے پر، اُنھوں نے پریشانی کا اظہار کیا، جس کے بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی میں اسلام کے نفاذ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

اشرف ترکی آتے جاتے رہتے ہیں۔ بقول اُن کے، ’’15 برس میں پہلی بار، نوجوان فوجی اہل کار حکومت کے بارے میں سخت کلمات کہتے پائے گئے‘‘۔ یہ بات غیر معمولی ہے، خاص طور پر تب کہ ایسی باتیں غیر ملکی سیاحوں کے سامنے کی جائیں۔

حالانکہ، اُنھوں نے توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ اعلیٰ سطحی فوجی اہل کار حکومت کے حامی لگتے تھے۔

عمر تسپنار واشنگٹن میں قائم ’بروکنگز انسٹی ٹیوشن‘ میں تجزیہ کار ہیں۔ وہ بھی کئی ماہ سے انقلاب کے امکان کے بارے مین خبردار کرتے رہے ہیں۔

بقول اُن کے، ’’اِس وقت سوال یہ اٹھتا ہے آیا تختہ الٹنے کی یہ کوشش چوٹی کی کمان کی کارستانی ہے، جس میں اعلیٰ افسران ملوث ہیں، یا یہ کرنلوں کی سطح کے انقلاب کی کوشش ہے، یا یہ فوج کے ایک حصے کی جانب سے کی گئی ہے۔ ابھی یہی لگتا ہے کہ یہ فوج کے ایک حصے کی طرف سے کی گئی ایک کوشش تھی‘‘۔

XS
SM
MD
LG