پی ٹی ایم پر پابندی کے باوجود جمرود میں پختون جرگے کی تیاریاں پی ٹی ایم نے پابندی کا فیصلہ پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔ پی ٹی ایم 11 اکتوبر کو ضلع خیبر کے علاقے جمرود میں صوبے میں بے امنی کے خلاف 'پشتون قومی عدالت' کے نام سے ایک جرگہ منعقد کر رہی ہے۔ کسی بھی تنظیم پر پابندی لگانا مسئلے کا حل نہیں ہوتا: تجزیہ کار |
پاکستان کی حکومت نے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) پر ریاست مخالف سرگرمیوں کا الزام عائد کرتے ہوئے پابندی عائد کر دی ہے۔ تاہم اس کے باوجود پی ٹی ایم کی جانب سے 11 اکتوبر سے ضلع خیبر میں شروع ہونے والے پختون قومی جرگہ کی تیاریاں جاری ہیں۔
پی ٹی ایم نے وفاقی حکومت کی جانب سے پابندی لگائے جانے کے اقدام کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج بھی کر دیا ہے۔
پی ٹی ایم 11 اکتوبر کو ضلع خیبر کے علاقے جمرود میں صوبے میں بے امنی کے خلاف 'پشتون قومی عدالت' کے نام سے ایک جرگہ منعقد کر رہی ہے۔
صوبے بھر سے اس تنظیم میں شامل کارکن اور رضاکار پشاور سے ملحقہ قبائلی ضلع خیبر کی تحصیل جمرود کے علاقے غنڈی کے مقام پر پنڈال میں جمع ہو رہے ہیں۔
پی ٹی ایم کا دعویٰ ہے کہ شام کو شرکا کی تعداد ہزاروں تک پہنچ جاتی ہے جس میں پشاور یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی اداروں کے طلبہ اور انقلابی شاعر بھی پہنچ جاتے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں بالخصوص سوات، پشاور، وزیرستان، کرم، خیبر اور باجوڑ سے بھی لوگ یہاں پہنچ رہے ہیں۔
دو دن قبل وزارتِ داخلہ کی جانب سے پی ٹی ایم پر پابندی کا اعلامیہ جاری ہونے سے قبل گزشتہ ہفتے بھی پولیس نے پنڈال پر ہلہ بول دیا تھا۔ اس دوران کارکنوں پر لاٹھی جارج بھی کیا گیا اور پی ٹی ایم کے مطابق پولیس نے خیمے کو آگ بھی لگا دی۔
پی ٹی ایم پر پابندی کیوں لگائی گئی؟
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق پی ٹی ایم کے سیاسی نظریات سے اختلافات ہو سکتا ہے مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس کے ساتھ بہت سے لوگ وابستہ ہیں۔
سابق سیکریٹری داخلہ سید اختر علی شاہ کہتے ہیں کہ پابندی کا فیصلہ انسدادِ دہشت گردی قانون کے تحت کیا گیا ہے اور بظاہر اس کیس میں یہ اس قانون کا غلط استعمال لگ رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم کے رہنما قومی دھارے میں شامل رہے ہیں اور الیکشن بھی لڑتے رہے ہیں۔ لہذٰا ایسی سیاسی تنظیم پر پابندی سے بے چینی مزید بڑھے گی۔
اُن کے بقول تنظیم کے لوگوں نے جلسے، جلوسوں کے دوران نجی املاک کو نقصان نہیں پہنچایا۔
وہ کہتے ہیں کہ یہاں ریاست کا دہرا معیار نظر آتا ہے۔ ایک جانب ایک مذہبی جماعت تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کئی برسوں سے ریاست کی رٹ کو چیلنج کر رہی ہے۔ لیکن اس پر کوئی پابندی نہیں مگر پشتونوں کے حقوق کی بات کرنے والی تنظیم پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
سید اختر علی شاہ کا کہنا تھا کہ کسی بھی تنظیم پر پابندی لگانا مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔ بلکہ ریاست کو اُن عوامل کو سمجھنا ہو گا جس کی وجہ سے یہ لوگ سڑکوں پر نکلتے ہیں اور بظاہر ریاست سے مایوس ہو چکے ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے وکلا ونگ کے رہنما طارق افغان نے بھی وفاقی حکومت کے اس فیصلے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
پشتون قومی جرگہ میں شرکت کے لیے پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین نے وزیرِ اعلٰی علی امین گنڈا پور کو بھی دعوت دی ہے۔ وزیرِ اعلٰی نے جرگے کی حمایت اور اس میں شرکت کی بھی یقین دہانی کرائی ہے۔
قبائلی ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے عزت گل آفریدی نے رابطے پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ رکاوٹوں کے باوجود جمرود میں پنڈال سج گیا ہے۔ دُوردراز علاقوں سے آنے والے رضاکاروں کی رہائش کے لیے ٹینٹ بھی لگائے گئے ہیں۔
وفاقی وزارت داخلہ نے اتوار کو جاری کردہ اعلامیہ میں کہا تھا کہ انسدادِ دہشت گردی کے قانون 1997 کے تحت پی ٹی ایم کو کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کر دیا گیا ہے۔
پی ٹی ایم تقریباً ساڑھے چھ برس قبل قائم ہوئی تھی اور اس کے قیام کا مقصد پشتونوں کو درپیش سیکیورٹی، معاشی اور انتظامی مسائل پر آواز اٹھانا بتایا جاتا ہے۔
فورم