وزیرِ اعظم پاکستان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد آنے کے بعد پنجاب کے علاوہ ملک کے دیگر صوبوں میں بھی اس کے سیاسی اثرات نظر آ رہے ہیں۔ دو تہائی اکثریت سے خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے والی تحریکِ انصاف سے یہاں بھی اتحادی منہ پھیر رہے ہیں۔
گو کہ تحریکِ انصاف کی خیبرپختونخوا میں مضبوط حکومت کو مبصرین کی رائے میں کوئی خطرہ درپیش نہیں ہے، تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کے بقول وفاق کی سطح پر تیزی سے بدلتے حالات صوبے کی سیاست پر بھی اثرانداز ہو سکتے ہیں۔
مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی کے خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے بعض قانون ساز اپنی قیادت سے ناراض ہیں جن کو راضی کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے تاکہ صوبے میں کوئی سیاسی بحران سر نہ اُٹھالے۔
بلوچستان عوامی پارٹی کی خیبرپختونخوا حکومت سے علیحدگی
خیبر پختونخوا اسمبلی میں بلوچستان عوامی پارٹی' باپ' کے پارلیمانی لیڈر بلاول آفریدی نے منگل کی شام حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اپنا اتحاد ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
بلاول آفریدی نے یہ اعلان ایک ایسے وقت میں کیا تھا جب 'باپ 'کی مرکزی قیادت نے کہا تھا کہ تحریکِ عدم اعتماد کے لیے اُن کی جماعت اپنے فیصلوں میں آزاد ہے۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے خیبر پختونخوا اسمبلی میں چار اراکین ہیں ۔ ان اراکان کی حکومت سےالگ ہونے کے بعد صوبائی اسمبلی میں حزب اقتدار کے اراکین کی تعداد 93 رہ جائے گی جب کہ حزب اختلاف کے اراکین کی تعد 47 سے بڑھ کر 51 ہو جائے گی۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر وفاق میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت ختم ہوتی ہے تو اس کا خیبرپختونخوا پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
اُن کے بقول جس طرح تحریکِ انصاف کی مرکز میں حکومت ہوتے ہوئے سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہے تو اسی طرح اگر وفاق میں نئی حکومت بنتی ہے تو خیبرپختونخوا میں کسی سیاسی تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم صافی کہتے ہیں کہ حزب اختلاف کے رہنماؤں کی توجہ فی الحال مرکز میں پی ٹی آئی کی حکومت کو ہٹانے پر مرکوز ہے اس لیے ان کی خیبر پختونخوا کے معاملات پر توجہ نہیں ہے۔
سلیم صافی کا کہنا ہے کہ حکومت مخالف اتحاد کی پہلی ترجیح مرکز میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو کامیاب بنانا ہے۔
خیبر پختونخوا اسمبلی میں پی ٹی آئی کی پوزیشن
خیبر پختونخوا اسمبلی میں حکمران جماعت پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے اراکین کی تعداد 93 ہے جبکہ پاکستان مسلم لیگ( ق) سے تعلق رکھنے والے واحد رکن اسمبلی بھی حزب اقتدار کے حامی ہیں۔
سینئر صحافی عرفان خان کہتے ہیں کہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں تحریک انصاف کو واضح اکثریت حاصل ہے۔ اس لیے پی ٹی آئی کے وزیرِاعلیٰ محمود خان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔
البتہ ان کے بقول اگر وفاق میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو اس کے منفی اثرات محمود خان کی حکومت پر بھی پڑ سکتے ہیں۔
عرفان خان کے مطابق خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کےاندر کئی سیاسی دھڑے موجود ہیں۔ اگر مرکز میں وزیر اعظم عمران خان کی حکومت ختم ہوتی ہے تو یہ دھڑے صوبے میں اقتدار کے حصول کے لیے ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوسکتے ہیں۔
صحافی سلیم صافی کہتے ہیں کہ اس وقت مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت کو اپنی بقا کا چیلنج درپیش ہے کیوں کہ پی ٹی آئی کے متعدد اراکین حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں۔
سلیم صافی کا کہنا ہے کہ یہ اراکین بعد ازاں پاکستان مسلم لیگ( ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام میں شامل ہو سکتے ہیں۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ محمود خان اور صوبائی وزرا سمیت پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گی جبکہ انہوں نے صوبے میں تحریک انصاف میں کسی قسم کی گروہ بندی کی بھی تردید کی۔
علاوہ ازیں حزبِ اختلاف میں شامل صوبے کی سابق حکمران جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایل ولی خان نے نجی ٹی وی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے بعد سے عمران خان ناراض اراکین اسمبلی کو منا رہے ہیں اور ان سے بھی رابطہ کیا گیا ہے۔