واشنگٹن —
ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کے مشرقی ساحلوں پر ڈولفن مچھلیوں کی بڑی تعداد میں ہلاکت کی وجہ ایک وائرس ہے۔ یہ وائرس خسرہ جیسی بیماری کی طرح کا وائرس ہے۔
نیویارک اور شمالی کیرولینا کے بحر ِ اوقیانوس کے ساحلوں پر رواں برس جولائی میں 330 سے زائد ڈولفن مچھلیاں مردہ حالت میں پائی گئی تھیں۔ یہ گذشتہ ربع صدی میں سب سے بڑی تعداد ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ وہ وائرس ہے جو انسانوں میں خسرہ کی بیماری کا سبب بنتا ہے۔ یہ وائرس جانداروں کی قوت ِ مدافعت پر حملہ آور ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان جانداروں کو مختلف بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں جیسا کہ نمونیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ اس وائرس کو روکنے کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتے اور ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جانداروں میں اس وائرس کا پھیلنا اگلے برس مئی تک جاری رہے گا، جب تک کہ ڈولفن مچھلیاں اس وائرس کے خلاف مدافعت نہیں حاصل کر لیتیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کا خطرہ نہیں ہے کہ یہ وائرس انسانوں تک بھی پھیل سکتا ہے۔
نیویارک اور شمالی کیرولینا کے بحر ِ اوقیانوس کے ساحلوں پر رواں برس جولائی میں 330 سے زائد ڈولفن مچھلیاں مردہ حالت میں پائی گئی تھیں۔ یہ گذشتہ ربع صدی میں سب سے بڑی تعداد ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ وہ وائرس ہے جو انسانوں میں خسرہ کی بیماری کا سبب بنتا ہے۔ یہ وائرس جانداروں کی قوت ِ مدافعت پر حملہ آور ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان جانداروں کو مختلف بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں جیسا کہ نمونیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ اس وائرس کو روکنے کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتے اور ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جانداروں میں اس وائرس کا پھیلنا اگلے برس مئی تک جاری رہے گا، جب تک کہ ڈولفن مچھلیاں اس وائرس کے خلاف مدافعت نہیں حاصل کر لیتیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کا خطرہ نہیں ہے کہ یہ وائرس انسانوں تک بھی پھیل سکتا ہے۔