پاکستان کے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کی دھوم مچی ہے جس میں ایک لڑکی انوکھے انداز میں نعرے بازی کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ ویڈیو لاکھوں مرتبہ شیئر کی جا چکی ہے۔
گزشتہ ہفتے پاکستان کے شہر لاہور میں ہونے والے فیض میلے کے دوران یہ ویڈیو منظر عام پر آئی۔ ویڈیو میں نظر آنے والی خاتون عروج ہیں جو اپنی دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر انوکھے انداز میں نعرے بازی کر رہی ہیں۔
عرج اور ان کی ساتھی 'سر فروشی کی تمنا پھر ہمارے دل میں ہے' کہتے ہوئے اونچی آواز میں نعرہ لگاتی ہیں اور تالیاں بجاتی ہیں۔ لیکن اس ویڈیو کے پیچھے پیغام تھا کیا؟
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عروج اورنگزیب نے بتایا کہ وہ طلبہ تنظیم پروگریسوو اسٹوڈنٹس فیڈرل کلیکٹو لاہور کا حصہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ویڈیو وائرل ہو جانا ان کا مقصد نہیں تھا۔ بلکہ وہ یہ پیغام دینا چاہتی تھیں کہ طلبہ تنظیمیں نہ ہونے سے طلبہ کو بہت سے مسائل درپیش ہیں۔
عروج کا کہنا تھا کہ وہ اس بات پر پریشان ہیں کہ ہمارے معاشرے میں طلبا کو درپیش مسائل سے ہٹ کر لبرل یا غیر لبرل اور دوسرے غیر ضروری مباحثوں میں الجھا دیا گیا ہے۔ البتہ ویڈیو میں میرا پیغام یہ تھا کہ طلبہ کو متحرک کیا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ پچھلے سال نومبر میں بھی طلبہ یکجہتی مارچ کا اہتمام کیا گیا تھا اور اس سال بھی اسٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی 29 نومبر کو ملک گیر مارچ اور اجتماعات کا اہتمام کر رہی ہے۔
اسی ویڈیو میں ایک اور طالب علم حیدر کلیم بھی نعرے بازی کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر کیوں طلبہ تنظیمیں آج تک ایک غیر جمہوری فیصلے کا شکار ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ طلبہ تنظیمیں غیر فعال ہونے سے طلبہ کو فیسوں میں اضافے، کرپشن، داخلے اور رہائش کے مسائل اور بلوچستان یونیورسٹی میں ہراسگی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
حیدر کلیم کہتے ہیں کہ پارلیمان میں بیٹھے ہوئے نمائندے ان مسائل کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ ان کے بقول بہترین سیاسی اقدار اور قیادت طلبہ تنظیموں کی نرسری سے ہی پنپتی ہیں جن پر پابندی عائد ہے۔
سینئر صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ طلبہ تنظیموں پر پابندی ضیا الحق کے دور آمریت میں لگی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس زمانے میں ہر قسم کی یونین پر ہی پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ البتہ طلبہ کمیٹیاں کام کر رہی تھیں۔ ان کے بقول اس دور میں بھی جماعت اسلامی پاکستان کا طلبہ ونگ اسلامی جمعیت طلبہ متحرک تھا کیوں کہ یہ گروپ خود کو جماعت اسلامی سے الگ پیش کرتا تھا۔
بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کے حوالے سے مظہر عباس کا کہنا تھا کہ پابندی کے بعد نیشنل اسٹوڈنٹ فیڈریشن میں اتنے حصے بن گئے کہ وہ اپنی اہمیت اور طاقت کھو بیٹھی۔ اسی طرح دیگر سیاسی جماعتیں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ شامل ہیں ایک طلبہ ونگ ضرور رکھتی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جمعیت کے بعد آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹ فیڈریشن نے کراچی اور سندھ کے مختلف شہروں میں اپنی طلبہ سیاسی سرگرمیوں کو جاری رکھا۔ لیکن الیکشن نہ ہونے اور باقاعدہ یونین سازی نہ ہونے کی وجہ سے عمومی طور پر طلبہ یوننیز اور ان کے مسائل پر کسی نے توجہ نہیں دی۔
ان کا کہنا تھا کہ سندھ اسمبلی نے حال ہی میں ایک قرارداد منظور کی ہے جس کے مطابق اگلے سال کے دوران سندھ بھر میں طلبہ تنظیمیں فعال ہو سکیں گی۔
عروج کا کہنا ہے کہ اس وقت ان کی پوری توجہ اس بات پر ہے کہ 29 نومبر کو ہونے والے اجتماعات میں زیادہ سے زیادہ طلبہ حصہ لے کر اپنی آواز بلند کریں۔ ورنہ اس ویڈیو کے گھر گھر پہنچنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ وقت آ گیا ہے کہ طلبہ کی آواز دبانے کی بجائے سنی جائے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ طلبہ اجتماعات پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں ہوں گے جس میں کسان، مزدور، وکلا، ڈاکٹرز کی تنظیموں کی بھی شمولیت متوقع ہے۔