پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ افغان طالبان کے اہل خانہ پاکستانی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں، جن میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ارد گرد کے علاقے بھی شامل ہیں۔ ان کے اس بیان پر افغانستان کے مشیر سلامتی امور حمداللہ محب نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ وہ پاکستان کی طرف سے طالبان کی مدد سے پردہ اٹھانے پر ان کو داد دیتے ہیں۔ اسی طرح افغانستان کے نائب صدر امراللہ صالح نے ایک ٹویٹ میں سوال اٹھایا ہے کہ افغانستان میں قتل عام کا ذمہ دار کون ہے؟
پاکستان کے نجی نیوز چینل 'جیو نیوز' کو اتوار کو دیے جانے والے انٹرویو میں شیخ رشید کا کہنا تھا کہ دہشت گرد تنظیم کے کچھ ارکان مقامی اسپتالوں سے علاج بھی کرواتے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی وزیر داخلہ کی جانب سے دیا گیا یہ بیان پاکستان کے اس مستقل مؤقف کی نفی کرتا ہے جس میں وہ ہمیشہ افغان رہنماؤں کی جانب سے اس ضمن میں لگائےجانے والے الزامات کو مسترد کرتا رہا ہے کہ افغانستان کے اندر دہشت گرد کارروائیاں کرنے اور جاری رکھنے کے حوالے سے طالبان پاکستانی سرزمین کا استعمال کرتے ہیں۔
شیخ رشید نے اسلام آباد کے مضافاتی علاقوں کے نام لیتے ہوئے انٹرویو میں بتایا تھا کہ طالبان کے خاندان یہاں پاکستان کے علاقوں روات، لوئی بیر، بارہ کہو اور ترنول میں رہتے ہیں۔
ان کے بقول کبھی کبھار ان کی میتیں آتی ہیں اور کبھی وہ علاج معالجے کے لیے اسپتالوں میں آتے ہیں۔
ایک طویل مدت سے پاکستان یہ الزام لگاتا رہا ہے کہ افغانستان سے ملنے والی لگ بھگ 2600 کلومیٹر کھلی سرحد کی وجہ سے شدت پسند باآسانی دونوں ملکوں کے درمیان غیر قانونی نقل و حرکت جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستانی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ملک میں لگ بھگ 30 لاکھ افغان مہاجرین قیام پذیر ہیں۔ جو کہ کبھی کبھار طالبان کے جنگجوؤں کو چھپنے ک جگہ فراہم کرتے ہیں۔
افغانستان میں کئی سالوں سے جاری تشدد اور افراتفری کی وجہ سے بے دخل ہونے والے متعدد افغان خاندان غربت کے شکار اپنے ملک سے بھاگ نکلے تھے۔
دوسری طرف پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا اتوار کو کہنا تھا کہ رواں سال 11 ستمبر کی حتمی تاریخ تک جب امریکہ اور نیٹو اتحادیوں کی افواج افغانستان سے نکل جائیں گی تو افغانستان شورش اور افراتفری کا شکار ہو سکتا ہے۔
اپنے آبائی شہر ملتان میں صحافیوں سے گفتگو میں شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ افغانستان میں تشدد کی کارروائیوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور ظاہر ہے اس بارے میں پاکستان کو تشویش لاحق ہے۔
انھوں نے خبردار کیا کہ اگر افغان سیکیورٹی کی صورت حال بگڑ کر خانہ جنگی کی حالت اختیار کر لیتی ہے تو یہ بات افغانستان کے لیے نقصان دہ ہونے کے علاوہ اس کے نتیجے میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی حاصل کردہ پیش رفت کو بھی نقصان پہنچے گا۔ جب کہ اس کی وجہ سے مزید افغان مہاجرین پاکستان میں داخل ہو سکتے ہیں۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ وہ پہلے ہی لگ بھگ 30 لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کے فرائض انجام دے رہے ہیں اور پاکستان مزید مہاجرینوں کو پناہ نہیں دے سکتا چونکہ پاکستان معاشی طور پر اس حالت میں نہیں ہے کہ مزید بوجھ برداشت کر سکے۔
افغانستان سے ردعمل:
افغانستان میں نیشنل سکیورٹی کے مشیر حمداللہ محب نے پاکستان کے وزیرداخلہ کے ایک حالیہ انٹرویو پر ان کی ستائش کی ہے اور اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ وہ وزیر داخلہ کی جانب سے طالبان کے لیے پاکستان کی مدد سے پردہ اٹھانے پر ان کو داد دیتے ہیں۔
’’ میں پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید کو داد دیتا ہوں کہ انہوں نے طالبان کے لیے پاکستان کی مدد سے پردہ اٹھایا ہے۔ ہمھیں مزید ایسے بہادر پاکستانیوں کی ضرورت ہے جو افغانستان پر حملوں کے خلاف بات کریں‘‘
پاکستان کے وزیرداخلہ شیخ کے بیان پر افغانستان کے نائب صدر امراللہ صالح نے بھی ایک ٹویٹ میں اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
’’ پاکستان کے وزیرداخلہ نے بی بی سی فارسی سروس کو بتایا ہے کہ طالبان پاکستان کے ہسپتالوں میں علاج کراتے ہیں، ان کے عزیز و اقارب کی قبریں یہاں پر ہیں، طالبان راہنما پاکستان کے اندر مقیم ہیں اور ان کے بچے یہاں اسکول جاتے ہیں۔ تو افغانستان میں قتل عام کا ذمہ دار کون ہے؟‘‘
اسی اثنا میں افغانستان کی وزارت خارجہ نے کہ ان کی حکومت کو امید ہے کہ پڑوسی ممالک مہاجرین کے مسئلے کو افغانستان پر دباو کے لیے استعمال نہیں کریں گے۔ ایک بیان میں افغانستان کے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ ان کا ملک پاکسان کے ساتھ افغانستان پاکستان ایکشن پلان فار پیس اینڈ سالیڈیریٹی (APAPPS) کے میکنزم کے حصے طور پر اپنے مہاجرین کی وطن واپسی پر مذاکرات کرتا ہے اور حکومت پاکستان کے ساتھ اس بارے میں مل کر کام کر رہا ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اتوار کو کہا تھا کہ امریکہ اور نیٹو اتحادیوں کے انخلا کے بعد تشدد اور غیر یقینی کی صورتحال افغانستان کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ ملتان میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا
’’ افغانستان کے اندر تشدد بڑھ رہا ہے اور ظاہر ہے کہ پاکستان کو اس بارے میں پریشانی ہے‘‘
ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ پر امید
افغانستان میں اعلی مصالحتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے حالیہ دنوں میں طالبان کی طرف سے کئی اضلاع پر قبضے کے پس منظر میں کہا ہے کہ یہ نقصان غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے ایک اثر کے طور پر ہوا ہے۔ انہوں نے امید کا اظہار کیا کہ یہ پیش قدمی جلد روک دی جائے گی۔
ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ مسئلے کی وجہ یہ قیاس آرائیاں بنی ہیں کہ افغانستان کی حکومت اور امریکہ کی حکومت سکیورٹی کے اڈے طالبان کے حوالے کر رہے ہیں۔
وہ پیر کے روز کابل میں گفتگو کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر طالبان سوچتے ہیں کہ وہ طاقت کے ساتھ جیت جائیں گے تو وہ ایک بار پھر غلطی کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی حکومت ملک میں جنگ کے خاتمے کے لیے سیاسی حل نکالنے کی کوششیں جاری رکھے گی۔
افغانستان کے مقامی میڈیا نے اتوار کو ایک رپورٹ میں بتایا کہ گزشتہ دو ماہ کے اندر 108 اضلاع پر طالبان نے کنٹرول حاصل کر لیا لیکن افغانستان کی سکیورٹی فورسز نے اس عرصے میں دس اضلاع پر کنٹرول واپس لیا ہے۔ ذرائع کے حوالے سے یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ پچھلے چوبیس گھنٹوں میں مختلف صوبوں میں پانچ مزید اضلاع پرافغانستان کی سکیورٹی فورسز کا کنٹرول نہیں رہا ہے۔