خیبر پختون خوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں دس کھرب روپے مالیت کے مجوزہ دس سالہ ترقیاتی منصوبوں کی راہ میں حکمران پارٹی پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کے بقول سندھ اوربلوچستان کی حکومتیں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔
نئے قبائلی اضلاع اور اطلاعات کے خبیر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ کے مشیر اجمل وزیر نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں کہا ہے کہ یہ ایک ٹریلین روپے قومی مالیاتی کمیشن کے ایوارڈ کا تین فیصد ہیں جو کمیشن میں شامل تمام پانچوں فریق ادا کریں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کی وفاق، پنچاب اور خیبر پختون خوا میں حکومت ہیں اور یہ تینوں حکومتیں اس ادائیگی پر تیار ہیں مگر اجمل وزیر کے بقول سندھ اور بلوچستان کی حکومتیں یہ فنڈز دینے کے لئے تیار نہیں۔
وزیر اعلیٰ کے مشیر نے کہا کہ اس سلسلے میں ضلع کرم سے رکن قومی اسمبلی سجاد حسین طوری کے ذریعے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں سے رابطہ کیا گیا ہے۔
تاہم اجمل وزیر نے کہا کہ رکاوٹوں اور مسائل کے باوجود قبائلی اضلاع میں ترقیاتی اور فلاحی منصوبوں اور اصلاحاتی ایجنڈے پر زور و شور سے کام جاری ہے۔
ایک روز قبل صوبائی کابینہ کے خصوصی اجلاس میں قبائلی اضلاع سے متعلق 1188 منصوبوں پر عملد درآمد کا جائزہ لیا گیا۔ ان میں 388 ضلعی اور 726 دیگر شعبوں کے منصوبے میں شامل ہیں، جبکہ 24 ارب روپے کی لاگت سے 246 منصوبے اپنی تکمیل کے قریب ہیں۔
ضم شدہ اضلاع میں امن وامان قائم رکھنے سے متعلق اجمل وزیر نے کہا کہ لیویز اور خاصہ دار فورس کو پولیس میں باضابطہ ضم کرنے کے لیے صوبائی حکومت نے ایک اعلان جاری کیا ہے ۔ اس کے علاوہ تعلیم اور صحت کے شعبوں کا معیار بہتر بنانے کے لیے گھی اقدامات کیے جا رہے ہیں اور غریبوں کو طبی سہولتوں کے لیے صحت کارڈ دیے جا رہے ہیں۔
قبائلی اضلاع سے جمعیت العلماء السلام (ف) کے رہنما اور ممبر قومی اسمبلی مفتی عبدالشکور ن ضم شدہ اضلاع میں حکومتی اقدامات پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکمران جماعت دعوے زیادہ تر زبانی نوعیت کے ہیں جب کہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔
اجمل وزیر کا کہنا تھا کہ قبائلی اضلاع کے ترقیاتی، فلاحی اور اصلاحاتی پروگرام کے سلسلے میں چند روز میں مہند، اور باجوڑ کے لوگوں سے جرگے شروع کیے جا رہے ہیں۔